حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایک مثالی خاتون


حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایک مثالی خاتون

اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایسی شخصیات نظر آتی ہیں جن کی زندگیوں کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو وہ شخصیات ہمارے لئے نمونہ عمل بن سکتی ہیں۔ انہی شخصیات میں سے ایک حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ آپ کی ذات گرامی مکمل نمونہ عمل ہے - آپ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا[1]۔

نصیر حسین بشیری

آپ کے والد گرامی خویلد بن اسد اور والدہ جناب فاطمہ بنت زائدہ بن اصم ہیں۔ نسب کے چند واسطوں سے آپ کا تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد سے جا ملتا ہے۔  والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب اس طرح  سے ہے: خدیجه بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزى بن قصى بن کلاب۔ جبکہ والدہ کی طرف سے نسب اس طرح سے ہے: خدیجه بنت فاطمه بنت زائده بن اصم بن رواحه بن حجربن عبدبن معیص بن عامربن لُوَى بن غالب. لُوَی جو کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد ہشتم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا ایک دوسرے کو چچا کے بیٹے (ابن عم) اور چچا کی بیٹی (بنت عم) کہہ کر پکارتے تھے[2]۔ آپ  کی ولادت ہجرت سے 68 سال پہلے ہوئی۔ آپ ایسی خصوصیات کی حامل تھیں جنہیں نمونہ عمل قرار دے کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان خصوصیات کا بطور اختصار ذکر کیا جا رہا ہے۔

 1- صاحبِ کردار خاتون:

تاریخ آپ کی  ابتدائی زندگی کے حوالے سے خاموش ہے۔  آپ بچپن میں اپنے والد کے سائے سے محروم ہو گئی تھیں[3]۔ آپ نے اس زمانے میں تجارت کو شروع کیا جب ربا کو اس کی بنیاد سمجھا جاتا تھا لیکن اس زمانے میں آپ نے اپنے بہترین فہم و ادراک کے ذریعے اسے مضاربہ کی بنیاد پر استوار کیا[4]۔ آپ نے  زمانہ جاہلیت  کے فساد سے خود کو محفوظ رکھا اور اس زمانے میں  آپ کو ملیکہ عرب کے ساتھ ساتھ “طاہرہ” کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا[5]۔ اس زمانے میں آپ نےغرباء و فقراء کی مدد  کو اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا[6]۔

2. بہترین زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی متعدد ازواج مطہرات تھیں تاہم درجات کے لحاظ سے مساوی نہ تھیں۔  ان میں سے صرف جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب تک آپ زندہ رہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ آپ کی فضیلت کے حوالے سے شیخ صدوق  نقل کرتے ہیں کہ  امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللّهِ بِخَمْسَ عَشَرَ اِمْرَأَةً اَفْضَلُهُنَّ خَدیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلَدٍ[7]، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پندرہ خواتین سے شادی کی، ان میں سے سب سے زیادہ با فضیلت خدیجہ بنت خویلد سلام اللہ علیہا تھیں۔

3- صاحب فضیلت شخصیت:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد حدیثوں میں آپ کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کس قدر صاحبِ فضیلت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “خَیرُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مَرْیمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ وَ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ”۔ کائنات کی بہترین خواتین مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں[8]۔ ایک اور حدیث میں آپ کو جنتی خواتین میں سے شمار کیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَ مَرْیمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فرْعَوْن۔ چار عورتیں جنت کی بہترین خواتین  ہیں: خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون[9]۔ ایک اور جگہ فرمایا: “یَا خَدِیجَۀُ اَنتَ خَیرُ اُمَّهَاتِ المُؤمِنینَ وَ اَفضَلَهُنَّ”۔ اے خدیجہ! تم امہات المؤمنین میں سب سے بہتر اور با ٖفضیلت ہو[10]۔

4- صالح اولاد کی تربیت:

اسلام میں اولاد کی تربیت کو بہت اہمیت دی گئی ہے[11] اور اس میں ماں کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا قرآن کی رو سے تمام مؤمنین کی ماں[12]  ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے بھی پہچانی جاتی ہیں کہ آپ ایسی اولاد کی ماں ہیں جو دنیا کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ نے اپنے دامن میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسی اولاد کی تربیت فرمائی جو سیدہ نساء العالمین کے لقب سے پہچانی جاتی ہیں۔ یہ بچی اپنی ماں سے اس قدر انس رکھتی تھی کہ اپنی ماں کی وفات  کے موقع پر اپنے بابا سے پوچھتی ہیں: بابا جان! میری ماں کہاں ہیں؟ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فاطمہ کو میرا سلام دیجیے اور بتا دیجیے کہ ان کی ماں حضرت خدیجہ، جناب آسیہ و مریم کے ساتھ جنت میں  زندگی گذار رہی ہیں۔[13]

آئمہ معصومین علیہم السلام ایسی ماں پر ہمیشہ ناز فرماتے تھے۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اس کے محور حق سے گمراہ ہو کر اخلاقی پستی سے دو چار ہونے اور اپنی سعادت و خوش قسمتی کی ایک وجہ، اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’معاویہ! چونکہ تمہاری ماں ’’ھند‘‘ اور دادی ’’نثیلہ‘‘ ہے اسی لئے تم اس قسم کے برے اور ناپسند اعمال کے مرتکب ہورہے ہو۔ میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں‘‘۔[14] اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے لوگوں کے دلوں کی بیداری اور اپنی پہچان کے لئے اپنی ماں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور اپنی نانی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی طرف اشارہ فرمایا: “انشدکم الله هل تعلمون ان امی فاطمة الزهراء بنت محمد؟ ! قالوا: اللهم نعم . . . انشدکم الله هل تعلمون ان جدتی خدیجة بنت‏ خویلد اول نساء هذه الامة اسلاما؟ ! قالوا: اللهم نعم ”۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ میری ماں فاطمہ زہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ ... تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ میری نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں، جو خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں[15]۔

 

بشکریہ: شمس الشموس میگیزین

 

[1]. طوسى، محمد بن الحسن، الأمالی ؛ النص ؛ ص606 دار الثقافة - قم، چاپ: اول، 1414ق. مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بیروت) ؛ ج‏22 ؛ ص502

[2]. کشف الغمة فی معرفة الأئمة ، علی بن عیسی اربلی، ج2، ص132، ناشر: بنى هاشمى‏،نوبت چاپ: اول‏، سال چاپ: 1381 ھ ق.‏

[3]. ابن حجر عسقلانی، الاصابة فى تمییز الصحابة، ج‏7، ص‏602، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، سال چاپ:1415 ھ ق; محمدابن‏سعدبغدادی، طبقات کبرى، ج‏1، ص‏132، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1410ق.

[4]. ابن اثیر،علی بن محمد،اسدالغابه فی معرفۃ الصحابہ، ج‏7، ص‏80ناشر: داراحیاء التراث العربی; ابومحمدعبدالملک بن ھشام، سیره نبوى ابن‏هشام، ج‏1، ص‏187، ناشر: دار الکتب العلمیه،بیروت.

[5]. ابن اثیر،علی بن محمد،اسدالغابه فی معرفۃ الصحابہ، ، ج‏3، ص‏21; ابن حجر عسقلانی، الاصابة فى تمییز الصحابة، ج‏4، ص‏273.

[6]. شکوه زندگی، محمدتقی کمالی، ص 20ـ19، ناشر: نورالسجاد، سال چاپ: 1381ھ ش.

[7]. الخصال، شیخ صدوق، ج2، ص419.

[8]. ابن اثیر،علی بن محمد،اسدالغابه فی معرفۃ الصحابہ،ج 5، ص 537.

[9]. أبو عمر یوسف القرطبی، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، ج 2، ص 720 ، الناشر: دار الجیل، بیروت، چاپ اول:1412ھ ق.

[10]. شیخ غالب السیلاوی، الانوار الساطعه من الغراء الطاهره، ص 7، ناشر: محلاتی، سال چاپ:1383ھ ش..

[11]. محمد محمدی ری شہری، میزان الحکمه، ج 1، ص 103، ناشر: دارالحدیث، سال چاپ: 1384ھ ش.

[12]. وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ، سورہ احزاب/آیت6.

[13]. شیخ محمد بن حسن طوسی،امالی،  ص 175، ناشر: دارالثقافہ، سال چاپ: 1414ھ ق.

[14]. ابومنصور احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج علی اھل اللجاج، ج 1، ص 282، ناشر: دارالنعمان، سال چاپ: 1384ھ ق .

[15]. شیخ محمد بن حسن طوسی، امالی،  ص 463، ناشر: دارالثقافہ، سال چاپ: 1414ھ ق.

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری