شہید جنرل سلیمانی عالم اسلام کے عظیم کمانڈرتھے/ امریکا کو عراق چھوڑنا پڑے گا، سید عمار حکیم


شہید جنرل سلیمانی عالم اسلام کے عظیم کمانڈرتھے/ امریکا کو عراق چھوڑنا پڑے گا، سید عمار حکیم

عراقی رہنما سید عمار حکیم کا کہنا ہے کہ شہید جنرل سلیمانی ایک غیرمعمولی اور عالم اسلام کے عظیم کمانڈر تھے، شہید اعلیٰ تجزیاتی ذہانت کے مالک اور جنگ کے میدان میں نہایت کم لاگت پر اہم ترین منصوبے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

عراقی رہنما سید عمار حکیم کی تسنیم خبررساں ادارے کے نمائندے کے ساتھ خصوصی گفتگو/ شہید جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی خدمات خاص کر تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش کی نابودی کے بارے میں اہم سوالات اور جوابات

تسنیم:آپ برسوں سے شہید جنرل سلیمانی کوقریب سے جانتے تھے اور ان کے ساتھ حکیم خاندان کے تعلقات نہایت گہرے رہے ہیں۔ آپ کے شہید سلیمانی کے ساتھ تعلقات کب اور کہاں سے شروع ہوئے؟

عمارحکیم: بسم الله الرحمن الرحیم. عالم اسلام کے عظیم کمانڈر شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے میں ایک بار پھررہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای، ایرانی قوم، ان کے رشتداروں اور تمام پسماندگان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔ شہید سے میری ملاقات ایران میں اس وقت ہوئی جب میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق واپس جانے کی تیاری کررہا تھا۔

صدام کی حکومت کے خاتمے کےبعد شہید محمد باقر حکیم نے قم سے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں دینی طلاب کو منتقل کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی تو اس وقت میری پہلی ملاقات جنرل سلیمانی سے ہوئی۔

جنرل سلیمانی ایران میں عراق امور کے مسئول تھے، انہوں نے دینی طلاب کو قم سے عراق منتقل کرنے میں ہماری راہنمائی کی۔

تسنیم:عراقی ممتاز شخصیات خاص کر شہید محمد باقر حکیم اور مرحوم سیدعبد العزیز کے ساتھ شہید سلیمانی کے تعلقات کیسے تھے؟

عمار حکیم: شہید جنرل سلیمانی کے عراقی سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ نہایت قریبی اور برادرانہ تعلقات تھے۔ آیت اللہ شہید باقرحکیم کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں سب جانتے ہیں، جب آیت اللہ باقرحکیم نے عراق جانے کا ارادہ کیا تو جنرل سلیمانی نے ان کو الوداع کیا اور مرحوم سید عبدالعزیز جب بیمار تھے تو جنرل سلیمانی نے ان کی ہرممکن مدد کرنے کی کوشش کی جو ناقابل فراموش ہے۔

تسنیم: شہید سلیمانی کی شخصیت اور دفاعی اور فوجی مہارت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

عمار حکیم: شہید جنرل سلیمانی ایک غیرمعمولی انسانی تھے، دفاعی امور میں خاص مہارت رکھتے تھے، میدان جنگ میں سب سے پہلے حاضر ہونے کی جرات رکھتے تھے، نہایت ہوشیاری سے دشمن کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملانے کی صلاحیت سے سرشار تھے۔ اس کے علاوہ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائزتھے۔

تسنیم:اسلامی مزاحمتی محاذ خاص کر تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جہاد میں مختلف ممالک اور اقوام کے علاوہ مختلف مذاہب اور مسالک کے افراد شامل تھے، شہید جنرل سلیمانی مختلف ثقافتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک ہی پرچم تلے جمع کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

عمار حکیم: شہید جنرل سلیمانی تمام ممالک اور مذاہب کے افراد کو ایک ہی نظرسے دیکھتے تھے، مذہب، رنگ،نسل اور زبان  اوراس قسم کے اختلافات ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے، بس حرم اہلبیت اطہارعلیہم السلام اور اسلام ناب محمدی کا دفاع کرنا ان کا ھدف تھا۔

تسنیم: مشرق وسطی خاص کر عراق اور شام میں امریکا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گردوں کو شکست دینے میں شہید جنرل سلیمانی نے کیا کردار ادا کیا؟

عمار: جیسے کہ میں نے پہلے عرض کیا شہید جنرل سلیمانی نہایت ذہین اور تیز انسان ہونے کے ساتھ ساتھ عشق اہل بیت علیہم السلام سے سرشار تھے۔ شہید گوریلا جنگ لڑنے میں نہایت مہارت رکھتے تھے۔ خاص کر دشمن کے منصوبوں کے بارے میں پیشگوئی کرکے ناکام بنانا۔

جب داعش نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کیا تو جنرل سلیمانی نے بغداد کا دورہ کیا، اس وقت بغداد اور مضافاتی علاقوں میں بے چینی ہی بے چینی تھی۔ شہید پورے اعتماد کے ساتھ بغداد گئے اور داعش کے خلاف نہایت اہم پلان تیارکیا اورعراقی سیکیورٹی فورسز کو حوصلہ دیا۔ ان کے دورہ بغداد کے بعد ہی داعش کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور اللہ کے فضل سے تکفیریوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔

تسنیم: جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد جس طرح ایرانی اور عراقی  قوم نے وحدت و اتحاد کا مظاہرہ کیا، جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس کے تشییع جنازہ میں دونوں ملکوں کے لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ آپ کے خیال میں دونوں ملکوں کے تعلقات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

عمار حکیم:دشمن نے ہمیشہ ایران اور عراق کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، ان شہیدوں نے دشمن کے ناپاک  کو خاک میں ملادیا۔ امید ہے کہ ایران اور عراق کی عظیم قومیں اپنے شہدا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تعلقات کو مزید مستحکم اور مضبوط بنائیں گے۔ ایران اور عراق کے تعلقات بہت گہرے اور برادرانہ ہیں اور رہیں گے۔

تسنیم: شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد اسلامی مزاحمتی محاذ کے مستقبل کے بارے میں کیا کہیں گے؟

عمار حکیم: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مزاحمتی محاذ کو مستحکم اور غیرقابل شکست بنانے میں شہید کا کلیدی کردار تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کے تربیت یافتہ مجاہدین خاص کر جنرل قاآنی ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔

تسنیم:امریکا نے سرکاری سطح پر عراق اور ایران کے عظیم کمانڈروں کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا، آپ کے خیال میں اس دہشت گردانہ حرکت کا امریکیوں پر کیا اثر پڑے گا؟

سید عمار: ایران اور عراق کی قومیں اپنے شہیدوں کے خون کا بدلہ چاہتی ہیں، شہدا کے خون کا انتقام یہ ہے کہ ہم ان کے اھداف کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں۔

غیرملکی افواج کو چاہئے کہ عراقی سرزمین سے انخلا یقینی بنائیں اور عراق فوری طور پر چھوڑ دیں، عراقی قوم اب غیرملکی قوتوں کو مزید برداشت نہیں کرسکتی۔

تسنیم: آخرمیں شہید جنرل سلیمانی سے کچھ کہنا چاہیں گے؟

عمار حکیم: نقول لشهیدنا الکبیر حاج قاسم رحلت عنا و ترکت فی قلوبنا جرحا غائرا فهنیئا لک الشهادة فی سبیل الله لجهادک و جهودک و رزقنا الله اللحاق بک فی الدفاع عن الإسلام العظیم و قیمه السامیة. و انت حاضر فینا نهجا و عزما و ثباتا.

ہم اپنے عظیم شہید حاج قاسم سے کہیں گے کہ آپ ہم سے جدا ہوئے اور ہمارے دلوں میں ایک ایسا زخم چھوڑا جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہےگا۔

اللہ  کی راہ میں جد وجہد اور شہادت آپ کو مبارک ہو۔۔۔۔

ترجمہ و ترتیب: غلام مرتضی جعفری

 

 

 

 

 

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری