امام مہدی، امید بشریت
مایوسی اور ناامیدی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ روایات کے مطابق مایوسی اور ناامیدی کو شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مایوسی اور ناامیدی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ روایات کے مطابق مایوسی اور ناامیدی کو شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
ناامیدی اخلاقی رزائل میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید میں پروردگار فرماتا ہے: لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ (الزمر، 53) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے: قَالَ وَمَنْ یَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ (الحجر، 56) اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔
انسان کی کمزوری ہے کہ جب اس پر مشکلات آتی ہیں تو وہ بہت مایوس اور پریشان ہو جاتا ہے۔ ناامیدی اور پریشانی کا نتیجہ اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔ امام علی علیہ السلام ناامیدی کو بہت بڑی مصیبت قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: أَعظَمُ البَلاءِ اِنقِطَاعُ الرَّجَاءِ امید کا منقطع ہونا بہت بڑی مصیبت ہے۔
مایوسی کے مقابلے میں امید ہے۔ امید یعنی کسی خوشخبری اور اچھے واقعہ کے رونما ہونے کا انتظار۔ اسلام و قرآن، مومنین کو امید اور رحمت خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ امید روح کی تقویت اور مشکلات میں آسانی کا سبب ہے۔ امید نعمات الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ امید انسان کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرتی ہے۔ امید کے بغیر انسان مردہ لاش ہے جو زمین پر بوجھ ہے۔مایوس شخص دوسروں کو بھی ناامید کرتا ہے۔ امید زندگی بھی ہے امید رحمت بھی۔ امید فضل الٰہی بھی ہے امید صبر کی کنجی بھی۔
آخری زمانے میں منجی عالم کے ظہور، صالحین کی حکومت اور ان کی کامیابی و کامرانی کے سلسلے میں قرآن مجید میں بہت سی آیات کا تذکرہ ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُها عِبادِیَ الصَّالِحُونَ (سورہ انبیا، 105) اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَنُریدُ أَن نَمُنَّ عَلَى الَّذینَ استُضعِفوا فِی الأَرضِ وَنَجعَلَهُم أَئِمَّةً وَنَجعَلَهُمُ الوارِثینَ (سورہ قصص، 5) اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔
امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی امید اور انتظار سب سے بڑی عبادت ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: افضل العباده انتظار الفرج (بحارالانور ج 11، ص125) افضل ترین عبادت انتظار فرج ہے۔ آپ سے ایک اور جگہ منقول ہے کہ انتظار بہترین عمل ہے۔ افضل اعمال أمّتی انتظار الفرج (کمالالدین/2/644) میری امت کا افضل ترین عمل انتظار فرج ہے۔
انتظار امید کی تقویت کا سبب ہے جو مومنین کو ہمت و حوصلہ دیتا ہے۔ انتظار مشکلات کو گلے لگا کر مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ انتظار ظلم اور ظالموں کے ساتھ جنگ کا نام ہے۔ انتظار وعدہ وفا کرنے کا نام ہے۔ حضرت حجت اپنی توقیع مبارک میں فرماتے ہیں: اگر ہمارے شیعہ ہمارے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو اتحاد و وحدت کے ساتھ وفا کرتے تو ان کو جلد ہمارے دیدار کی سعادت نصیب ہوتی اور وہ ہماری ملاقات سے محروم نہ ہوتے۔
رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے امام زمانہؑ کی ولادت با سعادت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہر انسان کی زندگی میں مشکلات آتی ہیں لیکن اسے مایوس اور نا امید نہیں ہونا چاہئے، اسے ان مشکلات کے حل اور خاتمے کی امید رکھنی چاہئے اور امت محمدی زندگی کے کسی بھی حادثے میں مایوسی اور ناامیدی کا احساس نہیں کرتی اور انتظار فرج خود ایک راہ حل اور احساس سکون کا باعث ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انتظار فرج ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کا نام نہیں بلکہ اس فرج کے لئے خود کو آمادہ کرنے کا نام ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں ایک مہدوی معاشرے کے قیام کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش اور خود کو امام کے ظہور اور ان کے حضور پہنچنے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ (9 اپریل 2020)
انتظار فقط بیٹھ کر دعا کرنا نہیں بلکہ عملی جدوجہد کرنا ہے۔ انتظار مقدمہ ظہور ہے۔ انتظار معاشرے میں انقلاب کی راہ ہموار کرنا ہے۔ انتظار ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ انتظار ظالموں کے سامنے سرنڈر نا کرنا ہے۔ ہمارے پاس دو اہم چیزیں ہیں جو تشیع کی بقا کا سبب ہیں۔ جس کا اظہار اسرائیل میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شیعوں کے بارے میں تحقیق کرنے والے 300 محققین نے یوں کیا: اہل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں کی کامیابی اور بقا کی وجہ ان کا عاشورا اور ظہور پر اعتقاد ہے۔ انہوں نے عاشورا کو قیام سرخ اور ظہور کو انتظار سبز سے تعبیر کیا۔ یہ ایسے دو بال و پر ہیں جن کے ذریعے سے شیعہ پرواز کرتے ہیں۔
روایات میں منتظرین امام کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آخرالزمان کے لوگ جنہوں نے امام کی امامت کو قبول کیا اور ظہور کے منتظر ہیں سب زمانوں کے لوگوں سے برتر ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو ایسی عقل و شعور اور فہم و فراست عطا فرمائی ہے کہ وہ غیبت کے زمانے میں ایسے ہیں جیسے ظہور امام میں ہوتے ہیں۔ آخری زمانے کے لوگ ایسے ہیں جیسے پیغمبر کے زمانے میں ان کے ساتھ شمشیر سے جہاد کرنے والے ہوں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: پوری دیندار انسانیت، صلح کی منتظر ہے اور تمام مسلمان، مہدی موعود کے منتظر ہیں۔ مسلمانوں کی نظر میں امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خصوصیت یہ ہے: یملاً الله به الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا یعنی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام اور زمین سے ظلم و ستم کا خاتمہ، امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ہے۔ جس اسلام میں عدل و انصاف کے لیے کوشش اور ظلم کے ساتھ جنگ نہ ہو وہ کیسا اسلام ہے؟ بشریت اس چیز کی جانب حرکت کر رہی ہے جس کا مظہر امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے جس کا متواتر احادیث میں تذکرہ آیا ہے کہ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گی اور ظلم و ستم کا خاتمہ کر دے گی۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج 15 شعبان کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تاریخ انسانیت میں ایسا دور بہت ہی کم آیا ہے جب پوری دنیا میں انسانوں کو بیک وقت کسی ایک نجات دہندہ کی ضرورت محسوس ہوئی ہو اور آج اس منجی کی ضرورت کا احساس کیا جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج دانشور اور عالم طبقہ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس منجی کی ضرورت کا احساس کر رہا ہے اور عام لوگ بھی لاشعوری طور پر ایک منجی اور مہدیؑ کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ انسانیت جس عدل و انصاف کی منتظر ہے وہ امام مہدیؑ ہی قائم کریں گے۔ (9 اپریل 2020)
انسانوں کی سب سے بڑی اور مقدس آرزو، سعادت و خوشبختی، حق کی حاکمیت، عدالت و معنویت اور مدینہ فاضلہ کا قیام ہے۔ ایک مثالی (Ideal) معاشرے کا قیام بشریت کی آرزو بھی ہے اور اس کا انتظار بھی، جس کا ذکر سب ادیان میں ہے۔ سب ادیان و مذاہب ایک ایسی ہستی کے منتظر ہیں جو ظلم و جور سے بھری دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے گی۔ منجی موعود طول تاریخ کے مظلومین اور مومنین کے لئے امید کی کرن اور بشارت ہے۔ آپ ایک دن اللہ تعالی کے حکم سے ظہور فرمائیں گے اور اس ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف اور امن کا گھوارہ بنا دیں گے۔
تحریر و تحقیق: رضوان حیدر نقوی
rizwanaqvi14@gmail.com