کورونا... امتحاں اور بھی ہیں


کورونا... امتحاں اور بھی ہیں

سال 2020 کا آغاز دنیا کے لئے نیک شگون ثابت نہ ہوا۔ 2020 کے شروع میں کورونا وائرس نے اپنی تباہی کا آغاز چین سے کیا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

تسنیم خبررساں ادارہ:

آج آدھا سال گزرنے کو ہے اور ابھی تک لاکھوں انسان اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ چند مہینوں تک مزید کچھ معلوم نہیں کہ یہ وائرس مزید کتنی تباہی پھیلائے گا اور کتنی جانوں کا خاتمہ کرے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے 2020 کا سارا سال ہی کورونا وائرس کی نظر ہو جائے گا۔

کورونا وائرس نے معاشرے کے تمام افراد پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا شخص چاہے امیر ہو یا غریب، تاجر ہو یا بیزنس مین، ملازم ہو یا دوکاندار، طالب علم ہو یا افسر سب اس وائرس سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے ہیں۔

کورونا سے سب ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں۔ البتہ کچھ ممالک کا کم اور کچھ ممالک کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ کورونا کم بخت نے نہ غریب ملک دیکھا نہ امیر، نہ چھوٹا ملک دیکھا نہ بڑا، اس نے اپنے پنجے سب جگہ گاڑھے ہیں۔ کورونا نے جہاں امیر ممالک کو نقصان پہنچایا ہے وہاں تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لئے بھی بہت خطرناک ثابت ہوا ہے۔

غریب ممالک کی پہلے ہی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تعلیمی حالت بہت ہی نازک تھی اور صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان بھی۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی۔ ایک طرف کورونا کی آفت ہے تو دوسری طرف حکومتی ناقص پالیسیز نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔

ہماری حکومت کورونا وائرس کے آغاز سے ہی بوکھلاہٹ کا شکار تھی۔ کورونا سے مقابلے کے لئے کنفیوز پالیسیز مرتب کی گئیں۔ کوئی مضبوط اور مستحکم پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ اگر کوئی پالیسی بنائی گئی تو ہمیشہ کی طرح یا اس پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا یا ناقص عمل کیا گیا۔ البتہ اس میں ہم بحثیت پوری قوم شامل ہیں کیونکہ ملت و قوم کا شعور و آگاہی اور قوانین پر عمل پیرا ہونا اس کا براہ راست قوم کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔

حکومت پاکستان نے کئی اچھے اقدامات کرنے کی کوشش کی جن میں سے ایک غریب عوام میں 12000 روپے کی تقسیم ہے، جو کہ ایک احسن قدم تھا لیکن جیسے اس رقم کو تقسیم کیا گیا وہ بھی ایک المیہ تھا۔ جس طر ح غریب بوڑھی خواتین کو قطاروں میں کئی کئی  گھنٹے کھڑا کر کے ذلیل و رسوا کیا گیا وہ بھی آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں افسوس ناک ہے۔ جبکہ اس سے بہتر راستے اور عزتمندانہ طریقے موجود تھے۔

اورسیز پاکستانی ابھی بھی باہر کے ملکوں میں در بدر کی ٹھوکرے کھا رہے ہیں۔ حکومت نے کئی اسپیشل اور اضافی پروازوں کا آغاز کیا لیکن یہ نا کافی ہے۔ ابھی تک اسٹوڈنٹس اور مزدور باہر کے ممالک میں بیٹھے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ لوگ منتظر ہیں کہ کب اپنے ملک واپس آئیں گے۔

وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف صاحب نے باہر سے آنے والوں کے لئے آخری حکمت عملی یہ بیان کی کہ 24 گھنٹوں کے اندر ٹیسٹ لے کر منفی آنے کی صورت میں گھروں کو جانے کی اجازت ہو گی حتی اگر مثبت بھی آئے اور بیماری کی علامات نہ پائی جاتی ہوں تو بھی اپنے گھروں میں جا سکتے ہیں تا کہ خود کو گھر میں ہی قرنطینہ کر لیں۔ یہ اچھی پالیسی ہے لیکن جب ہم تفتان بارڈر سے آنے والے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں کئی دن نہیں بلکہ کئی ہفتوں تک پہلے بارڈر پر روک لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی دنوں تک صوبوں اور اضلاع میں قیدیوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ ان کا 2 سے 3 مرتبہ ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور متعلقہ افراد کا رویہ بھی ناروا، غیر انسانی و غیر اخلاقی ہوتا ہے۔ تفتان بارڈر سے پاکستان آنے والے لوگوں کے ساتھ یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جبکہ ابھی بائے ائیر آنے والے لوگوں کو ٹیسٹ لینے کے فورا بعد رزلٹ آنے سے پہلے ہی گھروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ 


وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیز کا آپس میں ٹکراو اور اختلاف بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پالیسیز اور قوانین انسانوں کی فلاح و بہبود اور لوگوں کی آسانی کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر یہ پالیسیز اور قوانین لوگوں کی بنیادی مشکلات میں اضافے کا سبب ہوں اور ان کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھ کر نہ بنائے جائیں تو یہ قوانین مفید ہونے کی بجائے تباہی، تفریق اور نقصان کا سبب ہوتے ہیں۔


پاکستان کے اہم ترین اداروں کی خستہ حالت اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ، ادارے اور انتظامیہ یا تو نا اھل اور کرپٹ ہیں یا سست اور کام چور یا ان سب کا مجموعہ۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک طرف حکومت کو اپنے بنیادی ڈھانچے میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف عوام کی شعور کی سطح فکر کو بھی بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کی تمام پالیسیز کا محور اور مرکزی نقطہ غریب عوام کی فلاح و بہبود ہونا چاہئے۔ حکومتی مشینری کا بنیادی اور اہم ترین ہدف و مقصد فقط اور فقط عوام کی خدمت ہونا چاہئے۔ یقین جانئے اگر ہم فقط قائداعظم محمد علی جناح کے ایک فرمان پر عمل کر لیں تو ہم جلد ہی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں گے اور وہ ہے ایمان اتحاد اور نظم۔ یہ کہنے کو 3 الفاظ ہیں لیکن ان پر عمل کر کے ہم دنیا کی بہترین قوم اور ملک بن سکتے ہیں۔ 

اقبال کے بقول
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

✍️تحریر: رضوان نقوی

 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری