ترکی کی جانب سے لیبیا میں نیا دفاعی میزائل سسٹم نصب


ترکی کی جانب سے لیبیا میں نیا دفاعی میزائل سسٹم نصب

الوطیہ ایئر بیس لیبیا کے شمال مغرب میں واقع ہے جہاں پر ترکی ساختہ جدید میزائل سسٹم نصب ہوئے ہیں

تسنیم خبر رساں ادارے کو موصول اطلاع کے مطابق اس ماہ کے اوائل میں ترکی نے لیبیا میں جدید ایس اے ایم میزائل سسٹم نصب کیا تھا تاہم صرف دو روز بعد ہی ایل این اے کے جنگی جہازوں نے بمباری کرکے انہیں تباہ کردیا جس کے بعد ترکی نے اس جدید دفاعی میزائل سسٹم کو نصب کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ایل این اے کی فضائیہ سے اپنی فوجی تنصیبات کو محفوظ رکھ سکے۔

واضح رہے لیبیا میں جاری جنگ نے شام کی سی صورتحال کی ہوئی ہے اور وہی عالمی طاقتیں اس ملک کا مستقبل بھی طے کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا میں اسلحہ بھیجنے کی ممانعت کے باوجود، ترکی نے جی این اے کو ڈرون طیارے اور فضائی دفاع کے ہتھیار دیے ہیں۔ ترکی لیبیا کی جغرافیائی اور اقتصادی طور پر اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس ملک کی ایک بڑی سیاسی طاقت کی حمایت کر رہا ہے۔ طرابلس میں قائم گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ (جی این اے) کے وزیر اعظم فیاض ال سراج نے حال ہی میں ترکی کے صدر اردوان سے ملاقات بھی کی اور دونوں لیڈروں نے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا عزم کیا۔ اردوان کو توقع ہے کہ اس علاقے میں ترکی کی سیاسی اور اقتصادی سبقت کے سلسلے میں لیبیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

لیبیا کی ایک اور عسکری طاقت جنرل خلیفہ حفتر ہیں، جنکی ترکی مخالفت کر رہا ہے۔ گذشتہ سال سے جنرل خلیفہ حفتر دارالحکومت طرابلس پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنرل حفتر مشرقی لیبیا میں طاقتور ہیں جبکہ طرابلس مغرب میں واقع ہے اور یہاں سراج حکومت قائم ہے۔ فیض السراج کو ترکی، قطر اور اٹلی وغیرہ کی حمایت حاصل ہے جبکہ جنرل خلیفہ حفتر کو متحدہ عرب امارات، اردن، مصر، روس اور فرانس وغیرہ کی حمایت سے برسرپیکار ہیں۔

چند ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کی چھ سالہ خانہ جنگی میں جی این اے کی لگاتار فتوحات ملک کا نقشہ پلٹ دیں گی۔ ۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں ترکی کے امور کی ڈائریکٹر نگار کوکسیل کا کہنا ہے کہ ترکی کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہے کہ لیبیا مصر اور متحدہ عرب امارت کی جھولی میں نہ گر نے پائے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر جی این اے خلیفہ حفتر کو مکمل طور سے شکست دے دے تو پھر ترکی کے لیے لیبیا میں اپنے قدم جمانا آسان ہو جائے گا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری