اسرائیل سے تعلقات کے فائدے!
حالیہ دنوں جب سے عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے تو دنیا بھر کی طرح پاکستان کے عوام بھی اس معاہدے کو فلسطینیوں کے ساتھ خیانت تصور کر رہے ہیں۔
تحریر : صابر ابو مریم
تسنیم خبررساں ادارہ: حالیہ دنوں جب سے عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے تو دنیا بھر کی طرح پاکستان کےعوام بھی اس معاہدے کو فلسطینیوں کے ساتھ خیانت تصور کر رہے ہیں؛ کیونکہ اس معاہدے کے اگلے ہی روز جمعہ کا دن تھا اور فلسطینیوں نے بڑی تعداد میں بیت المقدس میں نماز جمعہ کے بعد جمع ہو کر جو احتجاجی مظاہرہ کیا اس میں ایک ہی نعرہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا ’’خائن‘ ‘ اور اس پر عرب امارات کے حاکم کی تصویر چسپاں کر رکھی تھی ۔
فلسطینیوں نے عرب امارات کے حکمرانوں کی تصاویر کو بھی نذر آتش کیا۔ ان حالات کو دیکھ کر دنیا کے عوام بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں اسی نعرے کی حمایت کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈی بالخصوص ٹوءٹر پر ہاش ٹیگ ’’اسرائیل تعلقات خیانت‘‘ٹاپ پر چلا گیا۔
پاکستان کے عوام نے جہاں اپنا رد عمل دیا وہاں پاکستان کے سیاسی اور دانشور سمجھی جانے والی شخصیات نے بھی رد عمل دیا اور ایسے عناصر جو پاکستان پر دباءو بنانے کی پالیسی کے آلہ کار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کر رہی ہیں تو پاکستان کو تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے؛ اسی طرح چند اور دانشور حضرات نے تو یہاں تک بھی پوچھنا شروع کر دیا کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا کیا نقصان ہے؛ اب اس کے بعد کچھ اور دانشور عناصر نکلے اور انہوں نے تو پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے فوائد بھی بیان کرنا شروع کر دئیے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں انٹر ویو دیتے ہوئے جناب خورشید قصوری صاحب نے تو حد ہی کر ڈالی اور کہا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے پاکستان کو سائنٹفک ترقی ملے گی اور پاکستان کی زراعت کو بھی ترقی حاصل ہو گی ۔ قربان جائیے اس سادگی پر بھی۔
اس سے پہلے جنرل (ر) امجد شعیب اور اس طر ح کے دیگر معززین پاکستان بھی ایسی ہی باتیں کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات سے اسلحہ کی ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی حاصل ہو جائے گی فلاں فلا ں وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان کے یہ تمام دانشور عناصر مل کر بھی کئی برس سے پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ایک بھی فائدہ بیان نہیں کر سکے جو کہ عملی شکل کا ہو ۔
اب آئیے قائد اعظم محمد علی جناح کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے کی صہیونی تحریک کے آغاز پر ہی فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیل کے قیام کو ایک ناجائز قیام قرار دیا تھا اور بعد ازاں جب سنہ1948ء میں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل نامی ریاست قائم بھی کر دی گئی تو بابائے قوم نے واضح الفاظ میں اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا۔
اب پاکستان کے ان تمام اسرائیل حمایت یافتہ دانشوروں سے کہنا چاہئیے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی جذباتی کہہ دیں یا پھر یہ کہ یہ شخصیات قائد اعظم سے بھی زیادہ سوج بوجھ رکھتی ہیں؟ فیصلہ آپ خود کر لیں۔
کیا علامہ اقبال جیسی عظیم و بلند شخصیت کو بھی جذباتی کہا جائے گا کہ جنہوں نے بابائے قوم کو خطوط لکھ کر فلسطین کے لئے قرارداد منظور کرنے کی درخواست کی اور یہاں تک بھی کہا کہ اگر فلسطین کے لئے چلائی گئی تحریک میں مجھے جیل بھی جانا پڑا تو میں تیار ہوں ۔ تو کیا علامہ اقبال جو کہ مفکر اعظم ہیں ان کو جذباتی کہا جائے گا
اب آئیے اگر اسرائیل سے تعلقات کا کوئی ایک بھی فائدہ ہوتا تو قیام پاکستان کے بعد کا پاکستان کیا آج کے پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور تھا;238; کیا سنہ1947اور سنہ1948کا پاکستان آج کے پاکستان سے زیادہ طاقت رکھتا تھا؛ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، محمد علی جوہر اور دیگر زیرک قائدین نے اس بات کو ترجیح کیوں نہ دی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیں اور ترقی حاصل کر لیں؛ کیا بانیان پاکستان کا فیصلہ غلط تھا یا آج کے ان دانشوروں اور سیاست مداروں کا فیصلہ عقلی اور منطقی ہے؛ اس بات کا فیصلہ بھی آپ پر چھوڑ دیتا ہوں ۔
اب آئیے ان دانشوروں کے بتائے گئے فوائد کی بات کرتے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے ہم طاقتور ہو جائیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سنہ1973ء میں کمزور تھے کہ جب ہماری پاک فضائیہ کے پائیلٹس نے شامی جہازوں کو اڑاتے ہوئے اسرائیلی جنگی جہازوں کو تباہ کر دیا تھا; یا یہ کہ آج ہم واقعی بہت کمزور ہیں اور اسرائیل ہی ہماری زندگی کی آخری امید ہے ;238;نوجوانوں کو سوچنے کی فکر دیتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں۔
اب آئیے ذرا ان ممالک کی بات کر لیتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات بھی ہیں ۔ ترکی نے اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو سنہ1949ء میں ہی تسلیم کر لیا تھا تو کیا آج ترکی اسرائیل کی بدولت محفوظ اور طاقتور ہے؛ یا یہ کہ ترکی کے وہ تمام مقاصد حاصل ہو چکے ہیں جو وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے لینا چاہتا تھا۔
مصر نے بھی سنہ1978ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اسرائیل کو سنہ1979ء میں تسلیم کیا تھا تو کیا آج مصر وہی پہلے والا مصر ہے یا یہ کہ مصر کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
اگر اسرائیل پاکستا ن کا مسیحا ہے تو پھر مصر کا کیوں نہیں ہوا؛ مصر کی حالت آج کیوں زبوں حالی کا شکار ہے۔ اردن کی بات کر لیتے ہیں تو اردن نے بھی سنہ1994ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا تو کیا آج اردن محفوظ ہو گیا ہے؛ یا یہ کہ آج اردن کو اسرائیل سے پہلے کی نسبت زیادہ خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ چھوڑتے ہوئے اس نقطہ سے بھی آگے بڑھتا ہوں ۔
اب آئیے خود فلسطینیوں کی بات کرتے ہیں ۔ جی ہاں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں نے بھی تو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کئے ۔ البتہ ان مذاکرات کو کروانے میں جہاں چند خیانت کاروں کی ہی سازش تھی البتہ پی ایل او نے جب مذاکرات کئے تو پھر یاسر عرفات کے ساتھ اسرائیل نے کیا انجام کیا ان کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔
تو اب یہ دانشور یہ بتانا پسندکیوں نہیں کرتے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا دھوکہ فلسطینیوں کے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھا جس کی وجہ سے ان کی مزید زمینوں پر قبضہ ہوتا چلا گیا اور مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے ہیں تو یہ منطقی دلیل نہیں ہے کہ پاکستان یا کوئی اور ملک بھی اس بات کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لے۔
فلسطین سے متعلق ہمیں فلسطینیوں کی رائے اور ان کی خواہشات کے مطابق چلنا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے وقت مفتی اعظم فلسطین کے ساتھ خط وکتابت کے ذریعہ رابطہ میں تھے اور آپ کا موقف وہی موقف تھا جو فلسطینیوں کا موقف تھا اور ان کی حمایت کا سبب بنتا تھاتاہم اگر آج کوئی عرب یا غیرعرب حکومت فلسطینیوں کی خواہشات کے بر عکس چلنا چاہتی ہے تو اس کو یقینا خیانت کہا جائے گا۔
ہمیں بطور پاکستان حکومت اور عوام فلسطین کاز کی حمایت بانیان پاکستان کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اور فلسطینیوں کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق کر رہے ہیں۔
ہم فلسطین کی حمایت میں ان سے آگے نہیں نکل سکتے اورکسی اور کو بھی آگے نہیں نکلنا چاہئیے بلکہ فلسطینیوں کی پشت پر رہتے ہوئے اصولی موقف اپنا نا چاہئیے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس موقع پر قائد اعظم کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے جس پر ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئیے ۔
یہ بات جان لیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں اگر ایک بھی فائدہ ہوتا تو یقینا بانیان پاکستان قیام پاکستان کے بعد اس کام کو انجام دے چکے ہوتے لہذا ہمیں ان خود ساختہ دانشوروں اور سیاست مداروں کے بھنور سے نکلنا چاہئیے کہ جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف نام و نمود اور دولت ہتھیانا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امت اور قوم کو بھی داءو پر لگانا ہے ۔
یہ بات بھی جان لیجئے کہ اگر چند خیانت کاروں کی باتوں کا اثر لے کر ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیں تو پھر مجھے بتائیں کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لئے کس منہ سے جدوجہد کریں گے؟
اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے مودی کو کلین چٹ دے دی۔ مودی اور نیتن یاہو دونوں ایک ہی جیسے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں لہذا اگر ہمیں کشمیر کی جد وجہد آزادی جاری رکھنی ہے تو پھر فلسطین کی جد وجہد آزادی بھی جاری رکھنا ہو گی اور اس کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل نامنظور پالیسی کو جاری رکھنا ہوگا۔
تحریر : صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی