پرویز مشرف یکم مئی کو پاکستان واپس آرہے ہیں، وکیل


پرویز مشرف یکم مئی کو پاکستان واپس آرہے ہیں، وکیل

جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل سلیمان صفدر نے کہا ہے کہ سابق صدر صحت کی خرابی کے باوجود عدالت میں پیشی کے لیے یکم مئی کو پاکستان واپس آرہے ہیں۔

 تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل سلیمان صفدر نے کہا کہ 'پرویز مشرف کے خاندان کے مطابق وہ خراب صحت کے باوجود یکم مئی کو پاکستان آ رہے ہیں'۔

عدالت میں پیشی کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'پرویز مشرف 2 مئی کو عدالت میں پیش ہوں گے لیکن ان کی صحت ٹھیک نہیں پھر بھی وہ آئیں گے'۔

یاد رہے کہ یکم اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنگین غداری کیس میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو 2 مئی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی جلد سماعت سے متعلق درخواست پر سماعت کی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 2 مئی کو پرویز مشرف کے پیش نہ ہونے پر ان کا دفاع کا حق ختم ہوجائے گا اور ان کو دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی۔

دوران سماعت سابق صدر کے وکیل نے کہا تھا کہ پرویز مشرف خود واپس آکر بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ مشرف یقین دہانی کے باوجود واپس نہ آئے تو کیا ہوگا، وعدہ کرکے واپس نہ آنے پر کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔

عدالتی استفسار پر سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ ذاتی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ پرویز مشرف واپس آئیں گے لیکن بطور وکیل مجھے ہدایات ہیں کہ پرویز مشرف خود پیش ہوں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ غیر موثر ہوچکا ہے، ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل غیر آئینی ہوتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ملزم جان بوجھ کر پیش نہ ہو تو اس کو فائدہ اٹھانے نہیں دے سکتے، سنگین غداری کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔

سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل پر پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل عدم موجودگی میں نہیں ہورہا، ان پر فرد جرم ان کی موجودگی میں عائد ہوئی تھی ، سابق صدر طلب کرنے پر پیشی کی یقین دہانی کروا کر گئے تھے۔

اس دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے تھے کہ ملزم جان بوجھ کرحاضر نہ ہوتو اس کے بعد کی کارروائی غیر حاضری کے زمرے میں تصور نہیں ہوگی، مفرور ملزم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری