سعودی عرب کا اسرائیل کی طرف ہاتھ بڑھانا ایک محاسباتی غلطی ہے


سینیئر تجزیہ نگارنے زور دیا ہے کہ زوال سے بچنے کے لئےسعودی شاہی خاندان کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف بڑھ گیا ہے جبکہ یہ مسئلہ سعودی عہدہ داروں کی جانب سے ایک محاسباتی غلطی ہے۔

تسنیم نیوز ایجنسی نے سینیئر تجزیہ نگار "سید هادی سید افقهی" سے "سید حسن نصر اللہ" کے سعودی عرب کے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے بیان پر بات کی۔ انھوں نے  بحث کے آغاز میں سعودی عرب کےمغرب کےساتھ تعلقات کا تاریخی پس منظر اور ان کے مفادات کو مندرجہ ذیل طور پر بیان کیا ہے۔

سعودی عرب کی مغرب والوں پر انحصار کا پس منظر

سعودی عرب کے صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی تاریخ اسرائیل کےقیام سے قبل یعنی 1948ء سے پہلے کو جاتی ہےاس رشتہ کا ثبوت موجودہ بادشاہ "ملک سلمان" کے والد "عبدالعزیز ولد عبد الرحمن آل فیصل آل سعود" کا دستخط کیا ہوا برطانیہ کے نمائندے "سرپرسی کاکس" کے نام خط ہے جس میں وہ سرپرسی کاکس کو اطمینان دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "میں عبدالعزیز بن عبدالرحمان تعہد دیتا ہوں کہ میری طرف سے فلسطینی سرزمین کو یہودیوں یا غیریہودیوں کو دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

جسطرح سرپرسی کاکس مناسب سمجھے عمل کرے اور قیامت کے دن تک میں خود اور میری اولاد اس عزم سے باہر نہیں ہونگے۔

اس خط کو اگر صہیونی حکومت اور سعودی عرب کے پس پردہ تعلقات کے رشتے کو سمجھنے کے لئے پرکھا جائے تو ہم اس تاریخ سے آج تک ان دونوں کے درمیان پس پردہ اور آشکار سرگرمیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ آل سعود حکومت نےصہیونی حکومت کی حمایت اور اس کے دفاع کاوعدہ کیا ہے۔

دوسری بات 14 فروری 1945ء کو نہر سویز میں "کوئنسی شپ" کے عرشے پراس وقت کے امریکی صدر "روزولٹ" کی عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات ہے جس میں روزولٹ، عبدالعزیز کو اطمینان دیتا ہے کہ ہم اس وقت تک تمہارے تخت و تاج کی حمایت کرینگے جب تک علاقے میں تم ہمارے مفادات کی حفاظت کروگے۔

یہ آل سعود کا آمریکہ کے ہر حکم پر "جی سر" کہنے کے فلسفے کی دوسری بنیاد ہے اس لئے اب صدر ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ، کوئی فرق نہیں پڑتا کیوںکہ عبدالعزیز اور آل سعود امریکہ اور اس کے مفادات کی حفاظت کے لئے متعہد ہوئے ہیں۔

پس اتپریرک اور برطانوی ثالثی کے ذریعے صہیونیوں اور آل سعود کے رابطے کا پہلے والی دستاویز سے ثبوت مل گیا۔ سعودی عرب کا امریکہ کی خوش خدمتی اور اسکے ساتھ بغلگیر ہونا دوسری دستاویز سے معلوم ہوا۔

اب ان دو معیاروں اور دستاویزوں کے ساتھ آپ ایک فریم ورک اور پیرامیٹر کی وضاحت کریں اور آل سعود کے صہیونی حکومت کے ساتھ حالیہ تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کو ششوں کو دیکھیں تو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ماجرا کیا ہے۔

سعودیوں کا رائے عامہ کا امتحان لینا

بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار نے سعودی عرب کی طرف سے سعودی حکام کا صہیونی حکام سے غیرسرکاری ملاقاتوں کی ذرائع ابلاغ میں تشہیر کےمقصد کو رائے عامہ کے ضوابط اور رد عمل کا امتحان قرار دیا اور کہا کہ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اب تک ان دونوں حکومتوں کے درمیان اس طرح کا کوئی رابطہ موجود نہیں تھا یا کم از کم پس پردہ تھا تو اب کیسے آشکار ہوا؟

ان روابط کا آشکار کرنا دو قدموں اور دو مرحلوں میں کیا جا رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں روابط کو معمول پر لانے کےلئے سعودیوں کی طرف سے انفرادی اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور سعودیوں کی اسرائیلیوں کے ساتھ ملاقاتیں نیم خفیہ تھیں جو اب علنی ہوئی ہیں لیکن اب جب آشکار ہوئی ہیں تو تصدیق نہیں کر رہے ہیں بلکہ آزما رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صہیونی حکومت کے ساتھ رابطے کی اہمیت کو جہان عرب اور جہان اسلام کی نظر اور رائے عامہ میں کم کریں تاکہ صہیونی حکومت کے ساتھ رابطے کے مخالفین میں کمی آئے۔ اس مرحلے میں  آل سعود کے دربار سے منسلک کرداروں میں سعودی سیکیورٹی کے ریٹائرڈ جنرل اور سعودی دربار کے مشیر "ماجد انور عشقی" نے اب تک 4 بار صہیونی حکومت کے عہدہ داروں سے ملاقات کی ہے جو دو بار مکمل خفیہ جبکہ بعد کی دو بار کی ملاقاتیں منظرعام اور میڈیا پہ آگئیں ہیں۔

ان ملاقاتوں میں ماجد انور عشقی نے جو اظہار خیال کیا ہے وہ بہت اہم ہے۔

اس کے علاوہ دربار کے امیر "ملک سلمان" کے بھتیجے "ترکی الفیصل" بھی صہیونی حکومت کے تین اعلیٰ عہدہ داروں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

ترکی الفیصل ایک ملاقات صہیونی حکومت کے سابقہ وزیر جنگ "موشہ یعلون" سے کی ہے دوسری ملاقات "نتانیاہو" کابینہ کےسابق وزیر "بادانی ایالون" سے اور تیسری ملاقات "یعقوب عمیدور" کے ساتھ کر چکے ہیں۔

ترکی فیصل نے بھی ان ملاقاتوں کے دوران انتہائی اہم باتیں کی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیوں ان ملاقاتوں کو میڈیا میں لایا گیا ہے باوجود اس کے کہ یہ ملاقاتیں سرکاری نہیں تھیں؟ لہٰذا ان کا میڈیا میں آنا توجہ طلب ہے۔

دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی ضرورت

مغربی ایشیا امور کے مصنف اور محقق نے سعودیوں کی اسرائیلیوں کے ساتھ غیر سرکاری ملاقاتوں کے میڈیا میں آنے کے سوال کی تشریح کرتے ہوئے سعودی عرب اور صہیونی حکومت کی اندرونی صورتحال کے بارے بتایا: یہ سمجھنے کے لئے کہ ہوا کیا ہے کہ یہ دو حکومتیں ایک دوسرے کے قریب ہوگئیں ہیں، ضروری ہے دونوں حکومتوں کی حیثیت اور ان کی صورتحال کی جانچ پڑتال کرِیں۔

اس مرحلے میں آل سعود کو صہیونیوں کی ضرورت ہے اور صہیونیوں کو آل سعود اور اس کی مصنوعی بہنیں قطر، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین کی ضرورت ہے۔

ایران ایٹمی معاہدے کے بعد سعودی عرب کو اپنی تباہی کا احساس

سید هادی افقهی نے مزید بتایا کہ سب سے پہلے سعودیوں کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں۔

شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی سعودیوں نے اپنی حکمت عملی اور سفارتی نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا اور محتاطانہ رویے سے بنیاد پرستانہ، جارحانہ اور بحران کو بڑھاوا دینے والے رویے کی جانب رخ کیا ہے۔

ان کا تجزیہ یہ ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد علاقائی سپر پاور بن جائے گا، ایران کی اقتصادی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور اپنے حلیفوں جن میں عراق، شام، لبنان، یمن اور.... ہیں کی مدد میں اضافہ ہوجائےگا۔       

اس کے علاوہ اس مفروضے کی بناء پر کہ جوہری معاہدے میں ایران اور امریکہ قریب ہوگئے ہیں مزید بہتری آئے گی، ان سب کو سعودی عرب اپنے نقصان میں دیکھ رہا ہے اور جلد بازی میں اپنے وہم وگمان کے مطابق اقدامات اٹھاتے ہوئے یمن پر چڑھ دوڑا ہے تاکہ اس ملک کو اپنا بناسکے لیکن اس منصوبے میں بری طرح سے ناکام اور پھنس گیا ہے۔

سعودی عرب نے دوسری طرف خطے میں پراکسی جنگ شروع کی۔ داعش، النصره فرنٹ، احرار الشام اور دسیوں ایسے پیشہ ور دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لایا، سینائی صحرا، افریقہ، لیبیا اور خاص طور پر عراق اور شام میں ان دہشت گرد گروہوں کو لوگوں کی زندگیوں پرمسلط کیا لیکن شکست ہوئی۔ ایران کی ایٹمی پیشرفت کو بھی نہ روک سکے صرف ایک ہی طریقہ بچا کہ ایک اتحادی کو تلاش کرے جو ان کا ہمدرد ہو اور مشترکہ دشمن کی پہچان کرسکے، ایک واضح فریم ورک میں مشترکہ دشمن کے ساتھ لڑ سکے، اس وجہ سے سوچے سمجھے بغیر صہیونی حکومت کے پیچھے راہ لی۔

اب سعودی معیشت کے مسائل اور شاہی خاندان میں اقتدار کی کشمکش کے بحران کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا اور قارئین خود اس بارے بخوبی آگاہ ہیں۔

2000ء سے صہیونی حکومت کا سقوط شروع ہوا

انہوں نے مزید کہا کہ سال 2000ء سے صہیونی حکومت کا افول شروع ہوا ہے۔ اس کے فوجی طاقت کو 2000ء کے بعد سے انتہائی مہلک ضربات موصول ہوئے ہیں چاہے وہ لبنان میں حزب اللہ کےساتھ خاص طور پر2006ء کی 33 روزہ جنگ ہو و یا اس کے بعد سال 2009ء میں غزہ کی 22 روزہ مشہور جنگ۔ صہیونی حکومت کئی بار غزہ پر ہونے والے حملوں میں یہاں کے لوگوں کو نہ دبا سکی، حماس اور جھاد اسلامی جیسی جہادی تنظیموں کو غیر مسلح کرنے میں بھی ناکام رہی اور اس وجہ سے بحران سے دوچار ہوئی اور سلامتی، اقتصادی، سیاسی اور نفسیاتی بحران نے صہیونی حکومت کو ایسی صورتحال تک پہنچایا کہ حزب اللہ کے ساتھ 33 روزہ جنگ میں شکست کے بعد وینوگراڈ کے نام سے ایک حقیقت یاب کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ کشف کرے کہ کیوں دانتوں تک مسلح، تازہ ترین اور سب سے زیادہ جدید  ہتھیاروں سے لیس ایک مضبوط فوج ایک چھوٹے گروہ حزب اللہ سے شکست کھا گئے اور کیوں اپنے اھداف تک نہ پہنچ سکے۔ اسی وجہ سے ایک بے اعتمادی، قداست شکنی کا احساس اسرائیل کے باسیوں، فوجی کمانڈروں اور سیاسی حکمرانوں میں پیدا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب انتفاضہ اور مسلسل بغاوتیں بھی اٹھتی رہتی ہیں۔

اسرائیل سے دشمنی کے بجائے "ایران فوبیا پروجیکٹس" کا ایجاد

اگرچہ موجودہ دور میں یہ دونوں حکومتیں مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان مشکلات کو خطے میں ایران کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ  مل کر اپنانے والی مزاحمت کی پالیسیوں کا نتیجہ گردانتے ہیں اسی لئے منصوبہ بندی کا ایک مسودہ تیار کیا گیا اور کہا گیا کہ "آئیں، دونوں نفسیاتی کارروائیوں، سیکورٹی اور ذرائع ابلاغ کے دباؤ کے رخ ایران کی طرف گھوماتے ہیں، ہم کہے کہ اسرائیل خطے اور عرب دنیا کے لئے اب کوئی خطرہ نہیں ہے، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان معمولی تنازعات بالآخر حل ہوجائیں گے لیکن آج ایک سنگین خطرہ، ایک چیلنج اور ایک وسیع خطرے کا ہمیں سامنا ہے جو کہ ایران ہے لہٰذا اس منطق کے مطابق عربوں اور اسرائیل کو مل کر ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا چاہئے یعنی حقیقت میں اسرائیل سےڈرنے کی بجائے بحث کو "ایران فوبیا" میں تبدیل کر دیا ہے، بحث کےلئے مقدمہ فراہم تھا اس لئے ذرائع ابلاغ نےخطے میں ایران کی مداخلت کا ڈھونگ رچایا۔

تکفیریوں کو ایران سے منسوب کرنے کی ناکام کوشش

خطے کے امور کےتجزیہ نگار نے سعودی عرب کے ایران کے خلاف الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں مضحکہ خیز اور بچگانہ باتیں کی گئی ہیں کہ القاعدہ اور داعش کو ایران نے وجود میں لایا ہے جبکہ سی آئی اے، پینٹاگون، امریکی کانگریس کے اراکین کے اعترافات جیسے دسیوں ثبوت موجود ہیں کہ سعودی عرب ہی دینی مدارس، مساجد، یونیورسٹیوں، میڈیا اور مذہبی تعلیم میں تکفیریوں کو پرورش اور تربیت دے کر دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیج رہا ہے یہ سعودی عرب ہی تھا جو 11 ستمبر کو نیویارک میں ٹوئن ٹاورز پر بمباری میں ملوث تھا۔ پہچانے گئےکل 19 دہشت گردوں میں سے 11 سعودی کے تھے، باقاعدگی سے تکفیریت کی طرف کمیونٹی کو ترغیب دینےوالے داعش اور دہشت گردوں کی مالی اور تبلیغاتی حمایت کرنے والے یہ سعودی عرب کے مفتی ہیں۔ داعش اوردہشت گردوں سےاینٹلیجنس شیئرنگ سے لیکر صلاحیت بڑھانے کا سارا کام سعودی کر رہے ہیں تکفیریت کی بنیاد ہی سعودی عرب سے شروع ہوئی ہے کیسے یہ کام ایران کر سکتا ہے؟ کیا آج تک کسی شیعہ نے اپنےآپ کو دھماکے سے اڑایا ہے؟ کسی ایک عیسائی کو قتل کرنے کے لئے ایک شیعہ کہیں گیا ہے؟ لیکن ہم باقاعدگی سے سنتے آرہے ہیں کہ داعش عیسائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں؟ سنیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں؟ لہٰذا سعودی عرب نے اس کام کو شروع کر دیاہے جو کہ حقیقت میں مجبور ہوگئے ہیں۔

سید حسن نصراللہ کی سعودی – اسرائیل تعلقات کو مفت میں معمول پر لانے سے مراد

لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، جناب سید افقهی نے کہا کہ تعلقات کو مفت میں معمول پر لانے سے سید حسن نصراللہ کا یہ مطلب ہے کہ سعودی ابھی تک صہیونیوں سے کچھ نہیں لے سکے ہیں صرف صہیونیوں کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے جارہے ہیں اور یہ کام پشت سے خنجر مارنے کے برابر ہے۔ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اپنے سقوط سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں نہیں کہہ سکتے کہ ہم نابود ہو رہے ہیں اور کسی اتحادی کی تلاش میں ہیں۔ اس کا اعتراف نہیں کر سکتے لہٰذا فلسطینی بحران کو حل کرنے کے لئے اسرائیلی حکام سے بات چیت کررہے۔
سیدحسن نصر اللہ کے خطاب کو اس زاویے میں دیکھنا چاہئے کہ آپ کہتے ہیں کہ فلسطین بحران کو حل کرنے کی غرض سے اسرائیل کی طرف جھک گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو کیا دیا ہے اور کیا لیا ہے؟ سب کچھ آپ نے دیا ہے لیکن آپ کو کچھ حاصل نہی ہوا۔ اسرائیل نہ صرف آپ کیلئے بلکہ گھر کے مالک جناب "عرفات" کو بھی کچھ نہیں دیاہے تو پھر آپ کیا ہیں؟ محمود عباس کوموساد اور نیتن یاہو کے ایک ملازم ہونے کے باجود کچھ نہیں دیا ہےآپ کو ایک رابطہ کار اور دللال ہوتے ہوئےلگتا ہے کہ وہ کوئی چیز تم کو دے؟

سید حسن نصر اللہ کا مقصد ہے کہ عرب دنیا اور اسلامی دنیا میں ایک طویل عرصے سے اسرائیل کی طرف ایک خوف اورنفرت تھی اور رہیگی لیکن وہ اس مسئلہ کی قباحت اور اس کے بارے میں حساسیت کو کم کرنا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ اصل میں ایران دشمن ہے جبکہ یہ ایک انتہائَی احمقانہ بات ہے اس لئے کہ عرب دنیا، فلسطینی اور اسلامی دنیا سب اس بات کو مسترد کرتے ہیں۔

سعودیوں کی محاسباتی غلطی

انہوں نے مزید کہا کہ آل سعود غلطی پر ہیں۔ اسرائیل کو اپنا منجی خیال کر رہے ہیں یہ اشتباہ ہے ترکی الفیصل نے پیشہ ور منافقوں اور دہشت گردوں کے سرغنہ "مسعود رجوی" کی بیوی کے ساتھ ملاقات اوریکجہتی کا اعلان کرکے خیال کیا ہے کہ ایران کو خاصا نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا اس لئے کہ صدام جو ان کےمقابلے میں زیادہ مضبوط تھا، نے ان منافقوں کو سینکڑوں بندوقوں، توپوں اور ٹینکوں سے مسلح کرکے سرحد پر لایا لیکن سب مارے گئے۔ دوسری جانب، سعودی بہت کمزور اور صدام سے زیادہ برے حال میں ہیں وہ یمن کی ریت میں غرق ہو رہے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ہارا ہوا کھیل ہے دونوں نےڈربی میں ایک لنگڑے گھوڑے پر شرط لگایا ہے۔ اسرائیلی اور سعودی حکومت دونوں لنگڑے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ان ملاقاتوں سے تاریخ کے ریکارڈ میں سوائے شرمناک صفحات کےکچھ نہیں رہےگا اور ان کے لئے رسوائی اور مسلم دنیا کی ان سےنفرت کےسوا کچھ ان کے نصیب میں نہیں ہوگا۔