مغرب کا آزادی نسواں کا نعرہ جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں


جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کی اسسٹنٹ پروفیسر نے مغرب میں حقوق نسواں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک میں آزادی نسواں کا نعرہ جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ وہاں پر وضع کیا گیا خواتین کی آزادی سے متعلق خود ساختہ قانون عورت کو غلام بنا دیتا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کی اسسٹنٹ پروفیسر اینڈ فیکلٹی ممبر نرجس رودگرد جو بنت الھدی ہائی سکول کی ڈائریکٹر اور ولایت گلوبل نیٹ ورک میں ایکسپرٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں، سے ایک مختصر مکالمہ ترتیب دیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے۔

تسنیم نیوز: مغرب ایک طرف سے حقوق نسواں کے نعرے لگاتا ہے جبکہ دوسری طرف مغربی معاشرے میں مسلم خواتین کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں، انہیں اپنی روایات و اقدار کے مطابق حجاب اور لباس تک کی اجازت نہیں دی جاتی، مغرب کے اس دوہرے معیار کے بارے میں کیا کہیں گی؟

نرجس رودگرد: جیسا کہ آپ نے فرمایا، ایک بہت ہی واضح، صریح بے اصولی اور دہرا معیار دیکھا جا سکتا ہے، مغرب جو آزادی خواتین کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں اور جو عملی طور پر انجام دیا جاتا ہے، وہ بالکل دعوے کے برعکس ہے۔ ایک طرف تو مغرب والے کہتے ہیں کہ ہر انسان اپنے افعال میں آزاد ہے، عورت بھی آزاد ہے، آزادی اظہار، آزادی مذہب و عقیدہ، تو پھر ایک خاتون کو اس کے مذہب کے مطابق سر پر حجاب کیوں نہیں لینے دیا جاتا؟ کیوں مغربی ممالک حجاب کے خلاف ایک طوفان برپا کئے ہوئے ہیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغرب کا آزادی نسواں کا نعرہ ایک جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ علاوہ ازیں، خواتین کی آزادی کی خود ساختہ تعریف بنا لی گئی ہے جو بالکل ہی آزاد قسم کے والدین کی روش ہے اور آزادی کی بجائے ایک غلامی  ہے۔ یہ تعریف ایک قید کی مانند ہے۔ اس کے تحت خاتون سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا خاندانی کردار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جہاں اسلامی ممالک میں ایسے مسائل کم نظر آتے ہیں وہیں مغرب آزادی نسواں کی تعریف اور عمل دونوں میں بے اصولی کا شکار نظر آتے ہیں۔

تسنیم نیوز: مختلف مسلمان ممالک میں خواتین کی ترقی کے لئے باقاعدہ وزارتیں موجود  ہیں، اقوام متحدہ کے اعلامیوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے لیکن اکا دکا منفی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور  پھر اسلام کے خلا ف زہریلا پروپیگنڈا کیاجاتا ہے۔ اس حوالہ سے بتائیے؟

نرجس رودگرد: امریکہ اور مغرب مسلمان ممالک کے دشمن ہیں اور دشمن سے دشمنی کی ہی امید کی جاسکتی ہے۔ اکثر پاکستان، ایران یا دیگر مسلمان ممالک کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں حقوق انسانی کی رعایت نہیں کی جاتی۔ خواتین کو حقوق نہیں دئے جاتے لیکن اگر غور کیا جائے تو مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ زیادہ برا سلوک کیاجاتا ہے۔ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جاتی ہے۔ ان سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے تاہم اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ حقوق نسواں کے ان نام نہاد علمبردارروں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مغرب میں خاندان کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے۔ وہی صبح سے شام تک کام کرتی ہے اور اپنا گھر چلاتی ہے۔ وہاں ماں گھر کی سرپرست ہوتی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کو بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔ صبح سے شام تک وہ کام بھی کرتی ہے اور مغرب کے مرد کو اگر دیکھا جائے تو وہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہوتا ہے اور اس پر گھر کی ذمہ داری بھی نہیں ڈالی جاتی۔

تسنیم نیوز: پاکستان میں ہر دور میں خواتین کے حقوق کے لئے زور و شور کےساتھ قانون سازی کی جاتی ہے، حالیہ حکومت بھی اس کام میں پیش پیش رہی اور مرد کو کڑا پہنانے اور اس میں سم لگا کر اس کی نگرانی کرنے کا بل پاس کیا گیا، کیا ایران میں بھی ایسی قانون سازی ہوتی ہے؟

نرجس رودگرد: یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ خواتین کو درپیش مشکلات پوری دنیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔  اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی تفریق نہیں ہے۔ کیا وہاں ایسے قوانین موجود ہیں جن کے ذریعے ان مشکلات کو برطرف کیا جاسکے۔ قانون ان مسائل کے حل کا صرف ایک ذریعہ ہے۔ لیکن بعض مسائل میں وہاں کا کلچر اور روایات ہیں جن کے ذریعے یہ مسائل حل ہوں گے۔ قانون کسی علاقے کے رسم و رواج میں تبدیلی نہیں لاسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ قانون سے وقتی تبدیلی واقع ہو جائے لیکن یہ دیرپا نہیں ہوگی۔   لوگ اپنی رسم و روایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کی روایات اور رسم و رواج پر تحقیق کی جائے، بجائے اس  کے کہ انہیں قانون کے ذریعے شکنجے میں لیا جائے۔ خصوصاً بعض علاقوں میں عورت کو چار دیواری سے باہر نہیں جانے دیا جاتا۔ اسے اپنی غیرت کے خلاف تصور کیاجاتا ہے۔ ایسی حالت میں انہیں قانون ملزم قرار دیتا ہے تاہم وہ اپنی رسم و رواج کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔