طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ، امریکی افواج کا انخلاء یقینی


طالبان اور امریکی حکام کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی مسلح افواج کے انخلا کا اعلان کیا گیا ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، امریکا اور افغان حکومت کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائیں تو امریکا اور اس کے اتحادی آئندہ 14 ماہ کے اندر اپنی تمام افواج افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔

سال 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوگئے۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ '10 مارچ تک طالبان کے تقریباً 5 ہزار اور افغان فورسز کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے۔'

کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز بھی 10 مارچ سے ہوگا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ آئندہ 135 دن کے اندر 8 ہزار 600 غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہوگا جبکہ آئندہ 14 ماہ کے اندر افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کی واپسی مکمل ہوجائے گی۔

اعلامیے کے مطابق طالبان انٹرا افغان مذاکرات کے تناظر میں سیکڑوں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔

واضح رہے کہ چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔

1- طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

2- افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔

3- طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔

4 - انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہاس کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔

معاہدے کے تحت امریکا اور طالبان نے اتفاق کیا ہے کہ 'اعتماد سازی' کے لیے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔

تاریخی معاہدے کی دوحہ میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن ثانی نے کہا کہ دوحہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا فریقین سمیت عالمی برداری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ قطر کی حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردار ادا کیا جس سے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کا خاتمہ اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ مرحلہ وار مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا جبکہ معاہدے کو حتمی شکل دینے پر تمام فریقین کا کردار قابل تعریف ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ آج امن کی فتح کا دن ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'امریکا تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنی توجہ مرکوز کریں'۔

امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ 'تمام افغان امن اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کا حق رکھتے ہیں'۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے تمام طبقوں کی آواز سننے کے نتیجے میں ہی پائیدار استحکام ممکن ہے۔ مائیک پومپیو نے قدرے حتمی لہجے میں کہا کہ 'تمام امور کے امریکا اور اس کے عوام کی سیکیورٹی لازمی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ امن کے بعد افغانستان کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

افغان طالبان کے سینئر رہنما ملا عبدالغنی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن معاہدہ افغانستان کی مجاہد قوم اور عالمی برداری کے لیے خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ خود مختار سیاسی فورس (جماعت) درکار ہے جو خطے کے دیگر ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد رکھے۔

ملا عبدالغنی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان قوم اسلامی نظام کے تحت ترقی کی بنیاد رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'تمام افغان دھڑوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ تمام اختلافات کو نظر انداز کر کے ایک مشترکہ اسلامی نظام تشکیل دیں جو ملک کی ترقی کا باعث بنے'۔

افغان طالبان رہنما نے امن معاہدے میں درپیش رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور تشکر کا اظہار کیا۔

انہوں نے چین، ازبکستان، روس، انڈونیشنا اور ناروے سمیت دیگر ممالک کا بھی شکریہ ادا کی جنہیں نے افغان امن معاہدے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کیا۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اس امن معاہدے میں طالبان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی گئی ہے جبکہ امریکی افواج کے بتدریج افغانستان سے انخلا کا عمل شروع ہوگا۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی نمائندگی کی، اس کے علاوہ لگ بھگ 50 ممالک کے نمائندوں نے بھی شرکت کی جبکہ معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں موجود ہے۔

مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں کابل حکومت اور طالبان میں بات چیت ہونے کی توقع ہے جو اگر کامیاب ہوئے تو افغان جنگ بالآخر اختتام پذیر ہوجائے گی۔

تاہم اس حوالے سے افغان حکومت کی پوزیشن اب تک غیر واضح ہے جسے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے براہِ راست مذاکرات سے الگ رکھا گیا تھا جبکہ ملک میں صدارتی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد سیاسی بحران بھی جنم لے چکا ہے۔

افغان حکومت کے ذرائع نے بتایا تھا کہ دوحہ میں طالبان سے معاہدہ ہوجانے کے بعد امریکا، کابل میں افغان حکومت کے ساتھ ایک علیحدہ تقریب منعقد کرے گا۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ معاہدے پر دستخط سے قبل ایک ہفتے تک دونوں فریقین نے باہمی اعتماد سازی سے تشدد میں کمی کے سمجھوتے پر عمل کیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکا کے 12 سے 13 ہزار فوجی اس وقت افغانستان میں موجود ہیں جس میں معاہدے کے چند ماہ کے عرصے میں کمی کر کے 8 ہزار 600 کردی جائے گی جبکہ مزید کمی طالبان کی افغان حکومت سے روابط پر منحصر ہے جنہیں وہ کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں۔

یہاں یہ واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی افواج کے انخلا کے لیے بات چیت کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ برس سے جاری تھا جس میں طالبان کے حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث گزشتہ برس ستمبر میں تعطل آیا تھا تاہم مذاکرات دسمبر میں بحال ہوگئے تھے۔

دوسری جانب معاہدے پر دستخط ہونے کے باوجود یہ تصور کیا جارہا کہ افغان مستقبل غیر یقینی ہے کیوں کہ اس معاہدے کے بعد افغان دھڑوں سے امن مذاکرات کیے جائیں گے جو ممکنہ طور پر پیچیدہ ہیں۔