مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے سالانہ پیغام میں فلسطین کے مسئلے کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، رہبرمعظم امام خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام پیغام میں فرمایا ہے کہ صدی کا سب سے بڑا ظلم فلسطین میں توڑا گیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے سالانہ پیغام میں فرمایا ہے کہ سینچری ڈیل شکست سے دوچار ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب نے حجاج کے نام پیغام میں فرمایا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے جو بلا تفریق مسلک، نسل و زبان، تمام مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں سرفہرست ہے۔
سپریم لیڈر نے سینچری ڈیل کے متعلق اپنے بیان میں کہا ہے سینچری ڈیل پر امریکا اور اس کے خیانت کار اتحادیوں کے ذریعے عمل کیا جا رہا ہے جوکہ انسانیت کے خلاف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توفیق الہی کی وجہ سے فلسطین کے عوام ہار مان کے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ آج وہ ماضی سے زیادہ پرجوش اور بہادری کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہیں تاہم انھیں کامیابی کے حصول کے لیے تمام مسلمانوں کی مدد کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مشرکین سے برائت کو ہر طرح کے ظلم و ستم، برائیوں اور ہر زمانے کے طاغوتوں سے بیزاری اور ہر دور کے منہ زوروں اور سامراجی قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کے مترادف قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ آج استکباری قوتوں اور ان میں سرفہرست امریکا کے کفر و شرک کے محاذ سے اعلان برائت کا مطلب، مظلوموں کے قتل عام اور جنگ سے بیزاری ہے۔ امریکی بلیک واٹر اور داعش جیسے دہشت گردی کے مراکز کی مذمت ہے، اس اعلان برائت کا مطلب بچوں کی قاتل صیہونی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں اور اس کے مددگاروں کے خلاف امت اسلامیہ کے فلک شگاف نعرے ہیں۔
مشرکین سے برائت کا مطلب مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے حساس علاقے میں امریکا اور اس کے حامیوں کی جنگ افروزی کی مذمت کرنا ہے۔
اعلان برائت کا مطلب جغرافیائی محل وقوع یا نسل و رنگ کی بنیاد پر تفریق و نسل پرستی سے بیزاری ہے۔ اعلان برائت کا مطلب اس شرافت مندانہ، نجیبانہ اور منصفانہ روش و سلوک کے مقابلے میں جس کی اسلام دعوت عام دیتا ہے، جارح و فتنہ انگیز طاقتوں کی استکباری اور خبیثانہ روش سے بیزاری ہے۔
دنیائے اسلام کے دانشوروں کے دوش پر، جن کی ایک بڑی تعداد مختلف ممالک سے آکر اس وقت حج کے اعمال میں شریک ہوئی ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے تاکید فرمائی کہ یہ درس، عالم اسلام کے دانشوروں کے ذریعے تمام قوموں اور رائے عامہ کے اذہان میں منتقل کیا جائے تاکہ افکار و نظریات کے معنوی تبادلے کا راستہ ہموار ہو سکے۔