ڈِینیل پرل قتل کیس: احمد عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل
امریکی صحافی ڈینیل پرل اغواء اور قتل کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کر دیا۔
تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، صوبائی دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور گزشتہ ماہ فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بینچ نے اپنے فیصلے میں 3 ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ مجرم احمد عمر سعید شیخ المعروف عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا۔
عدالت نے 18 برس بعد 3 ملزمان کو رہا کرنے کاحکم دے دیا۔
تاہم سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد احمد عمر سعید شیخ کو بھی رہا کردیا جائے گا کیوں کہ وہ پہلے ہی 18 سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں اور ان کی 7 سال قید کی سزا کو اسی مدت میں شمار کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے ریاست کی جانب سے شریک ملزمان کی عمر قید میں اضافے کی اپیل بھی مسترد کردی۔
قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کررہے تھے۔
بعد ازاں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ٹرائل کورٹ نے اس کیس میں ہاشم، عاصم عرف قاسم، حسن، احمد بھائی، امتیاز صدیقی اور امجد فاروقی کو مفرور قرار دیا تھا۔ عدالت میں ملزمان کے وکلا رائے بشیر اور خواجہ نوید احمد نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ استغاثہ ان کے موکل کے خلاف کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوا اور استغاثہ کے زیادہ تر گواہ پولیس اہلکار تھے جن کی گواہی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
ملزمان کے وکلا کا مزید کہنا تھا کہ اپیل کنندہ نسیم اور عادل شیخ پر ای میلز اور میسیجز کے ساتھ لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی زبردستی ظاہر کی گئی جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے ان کے اعترافی بیانات میں بھی جھول ہیں اور وہ رضاکارانہ طور پر نہیں دیے گئے۔
وکلا کا مزید کہنا تھا کہ مدعی نسیم سے 11 فروری 2002 کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی ظاہر کی گئی جبکہ کمپیوٹر ماہر رونلڈ جوزف نے کہا تھا کہ انہیں 4 فروری کو کمپیوٹر ویریفکیشن کے لیے دیا گیا تھا جس کے بعد 6 روز تک انہوں نے لیپ ٹاپ کا جائزہ لیا تھا۔ وکلا کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ثبوتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جبکہ عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزمان کی سزا کالعدم قرار دی جائے۔
تاہم ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سلیم اختر نے ٹرائل کورٹ کی دی گئی سزا کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ پروسیکیوشن نے ملزمان کے خلاف کسی شک و شبے سے بالاتر ہو کر کیس ثابت کیا ہے لہٰذا عدالت ان اپیلوں کو مسترد کردے۔