امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر برطانیہ میں پرتشدد مظاہرے
امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر برطانیہ میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، لندن میں ہونے والا احتجاج پر امن رہا لیکن وزیر بورس جانسن کی رہائش گاہ کے قریب ہونے والے احتجاج میں جھڑپیں ہوئیں تاہم بعد ازاں احتجاج ختم کردیا گیا۔
مظاہرین نے سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل کو’نسل پرست‘ قرار دیا اور سابق برطانوی وزیراعظم کے مجسمے کی توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ان کی یادگار پر کھڑے ہوکر نعرے بھی لگائے۔
مظاہرین نے پارلیمنٹ کی جانب جانے والے پل پر بھی ایک گھنٹہ احتجاج کیا اور جارج فلائیڈ کو انصاف فراہم کرنے کے نعرے لگائے۔
برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے سترویں صدی میں انسانوں کی تجارت کرنے والے شخص ایڈورڈ کولسٹن کے مجسمے کو غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔
مظاہرین ایڈورڈ کولسٹن کے مجسمے کی گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے لائے اور مجسمہ کو دریا میں پھینک دیا۔
پولیس حراست میں سیاہ فام امریکی شہری کی ہلاکت کے خلاف امریکہ کی بیشتر ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
مظاہروں کے باعث امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور ان کے فوج تعینات کرنے کے فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
سابق وزیر خارجہ ریٹائرڈ جنرل کولن پاول امریکی صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئین سے ہٹ گئے ہیں جبکہ ہمارے پاس آئین ہے اور ہمیں آئین کے مطابق چلنا ہے۔
اس سے قبل امریکہ میں فوج کی تعیناتی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ وزیر دفاع میں اختلافات سامنے آئے تھے۔ مارک ایسپر نے فوج کی تعیناتی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فوج بلانے کی ضرورت نہیں تھی۔