اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مقاصد


اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مقاصد

آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیا گیا اور اس کے فلسطین کی تحریک آزادی اور خود فلسطینیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

تسنیم خبررساں ادارہ: گذشتہ چند ماہ میں متحدہ عرب امارات او ر پھر بحرین کی جانب سے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلانات سامنے آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں فریقو ں کے مابین سفارتی وفود اور انٹیلی جنس وفود نے آمد ورفت شروع کر دی۔

 اس مقالہ میں ہم یہ بات جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیا گیا اور اس کے فلسطین کی تحریک آزادی اور خود فلسطینیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان دو ممالک کے تعلقات سے خطے میں اور بالخصوص پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پہلا سوال یہ کہ آخر امریکہ نے عرب امارات اور بحرین سے کیوں اسرائیل کو تسلیم کروایا؟ امریکہ جو گذشتہ دو برس سے مسئلہ فلسطین کی نسبت سے ایک نام نہاد امن معاہدے کا پرچار کر رہا ہے جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہاہے اس معاہدے کے تحت امریکہ چاہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو ختم کر دیا جائے تاہم اپنے اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکی صدر نے پہلے فلسطین کی تاریخی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اس کے بعد امریکی سفارتخانہ کو مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ جگہ اب غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی ہے تاہم اس عنوان سے امریکی صد ر کے تمام تر اقدامات کو شکست اور ناکامی کا سامنا رہا۔

دوسرے مرحلہ میں امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے اب عرب وخلیج دنیا کے ان ممالک کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے جو خطے میں خود بھی کسی قسم کی geo political حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ پہلے سوال کے جواب میں یہ بات واضح طور پر سامنے آ رہی ہے کہ امریکہ صدر نے صدی کی ڈیل کے تحت جو فلسطین کے مسئلہ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی یہ عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا بھی ان کے نزدیک اسی پلان کا حصہ ہے تا کہ مسئلہ فلسطین کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

دوسرے سوال کی طرف جانے سے پہلے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا واقعی امریکی صدر اور ان کے اتحادی اس عنوان سے کامیا ب ہو پائیں گے یا ہو ئے ہیں؟اگر چہ عرب امارات ااور بحرین نے اسرائیل کوتسلیم کر لیا ہے تو کیا اس سے مراد یہ لی جائے گی کہ فلسطین کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے؟ اور اب کوئی بھی فلسطین کے بارے میں بات نہیں کرے گا۔یقینا ایسا تو ہر گز نہیں ہوا ہے۔ یہاں پر جو بات قابل غور اور فہم ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کے عوام کیا کہتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟کیا فلسطینیوں نے بھی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خیر مقدم کیا ہے؟ فلسطینیوں نے ہر گز خیر مقدم نہیں کیا ہے۔؛لہذا یہاں پر اہل علم و دانش کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ جب فلسطین کی تحریک آزادی اور فلسطین کے عوام موجود ہیں اس وقت تک عرب امارات اور بحرین تو کیا پوری دنیا بھی اسرائیل کی جعلی ریاست اور ناجائز وجود کو تسلیم کر لے تو کچھ نہیں ہونے والا۔کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسی طرح ایک اٹل حقیقت یہ بھی موجو دہے کہ اسرائیل غاصب صہیونیو ں کی ایک جعلی ریاست ہے اور اس کا وجود ناجائز ہے۔

دوسرا سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔اگر چہ فلسطین کی تحریک ان عرب ممالک کی جانب سے اس طرح کی خیانت کاری کے باعث کمزور نہیں ہوئی ہے لیکن دوسری طرف سیاسی عنوان سے خطے کی سیکورٹی کو مزید خطرات لا حق ہو چکے ہیں۔سیاسی ماہرین کاکہنا ہے کہ عرب امارات تک اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کی آمد و رفت نہ صرف عرب امارات کو نقصان پہنچائے گی بلکہ خطے کی دیگر ریاستیں بھی متاثر ہوں گی۔ ان ریاستوں میں جہاں ایران شامل ہو گا وہاں ساتھ ساتھ پاکستان بھی صہیونی سازشوں کے نشانہ پر ہو گا۔

سیاسی ماہرین کی نظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کہ جہاں آئے روز مذہب کے نام پر شدت پسندانہ ماحول پید اہو رہا ہے ان سب عوام کا محرک بھی کسی نہ کسی طور سے اسرائیل اور امریکہ ہی ہیں۔ سیاسی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی ایک جماعت اس بات سے بھی متفق ہے کہ جب ان عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو پھر کشمیر کا مسئلہ بھی ان کے لئے دفن ہو چکا ہے کیونکہ جب یہ عرب ممالک فلسطین سے متعلق اپنا ضمیر فروش کر چکے ہیں تو اب حکومت پاکستان کو ان سے مسئلہ کشمیر پر بھی کسی قسم کی حمایت یا مدد ک توقع نہیں رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ جس دورانیہ میں عرب امارات اور  بحرین نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کیا ہے اسی دوران پاکستان کی کچھ مذہبی قیادتوں کو ایک سو ملین ڈالرز کی فنڈنگ بذریعہ عرب امارات اور دیگر عرب ملک سے ہوئی ہے جس کے بعد ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں عر ب ممالک کی جانب سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے خلاف احتجاج کا خدشہ عروج پر تھا عین اسی وقت پاکستان کے مفتیان اعظم کی سربراہی میں فرقہ وارانہ ریلیاں نکالی جا رہی تھیں جن کے باعث نہ صرف پاکستان میں امن و بھائی چارے کو نقصان پہنچا ہے بلکہ پاکستان کی معیشت کو شدید دھچکا بھی پہنچا ہے جس کا اظہا ر مختلف اخبارات میں سامنے آیا ہے۔

چند سیاسی ماہرین کاکہنا ہے کہ عرب اسرائیل تعلقات کی آڑ میں امریکہ، اسرائیل اورہندوستان نے مشترکہ طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشو ں کو تیز کیا ہے اور ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ملک میں پہلے سے موجود ان کے مقامی ایجنٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہی وہ دوسرے سوال کا جواب ہے جو مقالہ کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل تعلقات سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی و حواری یہ چاہتے تھے کہ فلسطین کا مسئلہ ختم کر دیا جائے، فلسطینیوں کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ غاصب اور ناجائز اسرائیل کے سامنے کھڑے نہ ہو سکیں لیکن دشمن و شیاطین کی تمام سازشیں او ر مکارانہ چالیں اب ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں؛ کیونکہ فلسطینی آج بھی ان عرب ممالک اور اسرائیل تعلقات کے بعد مسلسل جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور دنیا کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ اگر پوری دنیا بھی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کر لے تو اسرائیل کا وجود جائز نہیں ہو سکتا فلسطین اور فلسطینی عوام اپنی جگہ قائم رہیں گے اور جب تک فلسطین کے اندر فلسطینیوں کی آواز باقی ہے تو نہ ہی امریکی صدر کا نام نہاد امن منصوبہ صدی کی ڈیل اور نہ ہی عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات فلسطین کو ختم کر سکتے ہیں،یہ وعدہ الہی ہے کہ فلسطین آزاد ہو کر رہے گا اور اسرائیل کا ناجائز وجود نابود ہو کر رہے گا۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم

سیکرٹری جنر ل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

 

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری