بھارت کا سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار/ سفارتی اعتبار سے فیصلہ درست یا غلط؟


بھارت کا سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار/ سفارتی اعتبار سے فیصلہ درست یا غلط؟

بین الاقوامی تعلقات میں جذباتیت کے بھنور میں لئے جانے والے سیاسی نوعیت کے فیصلوں سے زیادہ شعوری طور پر دور رس نتائج کے حامل فیصلوں کا لیا جانا تدبرانہ اقدام گردانا جاتا ہے۔

پاکستانی کالم نگار مسعود چوہدری نے اپنے کالم میں پاکستان میں ہونے والی 19ویں سارک کانفرنس سے متعلق بھارت کی جانب سے عدم شرکت کو سفارتی اداب کے خلاف قرار دیا اور کہا ہے کہ ہم سب تاریخ کے مسافر ہیں اور ہمارے آج کئے جانے والے فیصلے خواہ وہ غلط ہوں یا صحیح تاریخ میں من و عن آنے والی نسلوں کے تجزیے کے لئے تحریر کر دئے جاتے ہیں۔

خبر ہے کہ ہندوستان نے نو اور دس اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والی انیسویں جنوبی ایشیاء کی علاقائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

نیپال جو کہ اس وقت صدر کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام ممبر ممالک کے درمیان رابطہ کا کام بھی کرتا ہے، نے توقع ظاہر کی ہے کہ سارک سربراہ کانفرنس اپنے معینہ وقت پر ہی ہو گی اور وزارت خارجہ نے بدھ کے روز تمام ممبر ممالک کو پیغام ارسال کیا ہے کہ  تمام سارک ممالک سربراہان انیسویں سارک سربراہ اجلاس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔

نیپال کے جوائنٹ سیکریٹری فارن منسٹری جہاں بندرا آریل کا کہنا ہے کہ اجلاس کے بارے میں فیصلہ میزبان کی صوابدید ہے جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے، ہندوستان کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں حقائق معلوم کرنے کے لئے وفود بھیجنا چاہتی ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 18ویں علاقائی سمٹ جو کہ کھٹمنڈو میں منعقد ہوئی، اس میں سری لنکا سمیت دیگر رکن ممالک مسائل کے حل کی جانب سست رو رویے پر احتجاج کرتے بھی پائے گئے۔

جنوبی ایشیاء کی علاقائی تعاون تنظیم کے منشور میں یہ شق تحریر ہے کہ اگر ایک بھی رکن ملک اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا تو اجلاس کا انعقاد ہی نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ تمام موجودہ آٹھ کے آٹھ رکن ممالک شرکت کے لئے رضامند نہ ہو جائیں۔

بنگلہ دیش 1980ء میں ہونے والے پہلے اجلاس سمیت اٹھارہ میں سے تین مرتبہ میزبان رہ چکا ہے اسی طرح بھارت، نیپال، مالدیپ، سری لنکا تین تین مرتبہ، بھوٹان ایک مرتبہ اور اس مرتبہ سے پہلے تک پاکستان دو مرتبہ کانفرنس کی میزبانی کر چکا ہے جبکہ رکن ملک افغانستان ابھی تک ایک مرتبہ بھی میزبانی کے فرائض سرانجام نہیں دے سکا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 1999ء سے 2002ء تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جاری رہنے والی عسکری کشیدگی کے باعث سب سے زیادہ چار سال تک اجلاس نہیں بلایا جا سکا جبکہ چھ سے زائد مرتبہ کم ترین عرصہ صرف ایک سال کی مدت میں اجلاس منعقد کیا گیا ہے۔

امن  کے ایام ہوں یا خطے کو کشیدہ صورتحال کا سامنا ہو، علاقائی تعاون کی تنظیمیں خطے کے ممالک کے باہمی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سفارتکاری کبھی نہیں رکتی، سفارتکار اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ہمیشہ ادا کرتے ہیں۔

ہندوستان جس تاریک راہ کی جانب گامزن ہے وہ اسے نہ صرف پوری دنیا میں اکیلا کر دے گا بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک سخت گیر مملکت کا چہرے کا حامل ہو جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان نے کبھی بھی سارک ممالک سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ نہیں کیں ہیں۔

ہندوستان کو سفارتی سطح پر اس انکار کا نقصان ہو گا کیونکہ اب اس کے اتحادی اس کے حق میں بیان بازی کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے واضح ہو گئے ہیں جو کہ آخری وقت تک خود کو چھپائے رکھا جانا انتہائی اہم ہوا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مشترکہ مفادات کا تحفظ بھی آسان ہو جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اگر صرف علاقائی تنظیم کے اجلاس کا معطل کروانا ہی مقصد ہوتا تو یہ کام تو اکیلے ہندوستان کے انکار کر دینے سے بھی حاصل ہو ہی چکا تھا لیکن دیگر ممالک کے معاملات پر آگے چل کر روشنی ڈالتے ہیں۔

پاکستان کو سفارتی سطح پر کچھ نقصان نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کے تعلقات ہندوستان کے ساتھ پیچیدگی کا شکار تو ہیں ہی اور دوسرا پاکستان کے اس موقف کو بھی تقویت ملے گی کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی طرف بین الاقوامی توجہ کو ہٹانے کی وجہ سے مذاکرات نہیں چاہتا اور یہ بھی
ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے کہ ہندوستان کا سخت گیر موقف اسے ایک تاریک گلی میں لیتا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی جانب سے ہندوستان کی ہاں میں ہاں کا ملایا جانا بالکل بھی ایک سوالیہ نشان نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق میں ہندوستان کے کردار سے متعلق مودی صاحب اپنی ہی زبان سے اعتراف کر چکے ہیں۔

آج ہم معذرت کے ساتھ بھی یہ سوال نہیں کر سکتے کہ کیا مکتی باہنی کا ساتھ دیا جانا اور اس کے ساتھ پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنا اور اس کے نتیجہ میں ایک الگ مملکت کے قیام میں کامیاب ہو جانا اور اس پر ہی بس نہ کرنا بلکہ پاکستان کے ساتھ مخلص لوگوں کو چن چن کر پھانسیوں کا دیا جانا کسطرح کی دہشتگردی قرار دی جائے؟

پاکستان کی جانب سے سوائے چند ایک خدشات و تحفظات کے بنگلہ دیش کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دیا گیا لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ خاص طور پر علاقائی سیاسی کشیدہ ماحول اور پاکستان کی مضبوط سفارتکاری کے باعث اس طرح کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ دنیا کو تاثر یہ دیا جا سکے کہ ہندوستان سفارتی اعتبار سے بہت مضبوط اور پاکستان بہت کمزور ہے۔

تاریخ دان یہ ضرور لکھے گا کہ جب پاکستان کے سپہ سالار اعظم جنرل راحیل شریف جرمنی میں کانفرنس کے دوران پاکستان کے امن کی طرف میلان کا بھرپور انداز میں تذکرہ کر رہے تھے، عین اسی وقت بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اپنی عوام سے اشتعال انگیز گفتگو کرتے ہوئے اپنی عوام کو کشیدگی کی جانب گامزن کئے ہوئے تھے۔

پاکستان میں موجود آزاد خیال حلقے جو کہ سارک کانفرنس کو امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس انکار نے انکی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔

اگر سفارتکاری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟ اگر بات چیت نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟ اس تناظر میں تو اس موقف کو بھی تقویت مل جاتی ہے کہ اب ہی تو ووٹ اکٹھے کرنے کا وقت ہے! امن کی بات پھر کبھی کر لیں گے!

بلا شبہ یہ فیصلہ ووٹ اور داد دونوں ہی نریندر مودی کی گود میں ڈال دے گا لیکن بین الاقوامی طور پر انہیں کتنا نقصان ہو گا اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہی درست انداز میں لگایا جا سکے گا.

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری