سعودی عرب نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے کی صورت میں پاکستانی محنت کشوں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی، ترک صدر کا انکشاف
ذرائع کا کہناہے کہ ترک صدر نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکام نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے کی صورت میں پاکستانی محنت کشوں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ سعودی حکام نے پاکستان کو 4میلین محنت کشوں کو ملک بدرکے ان کے بدلے بنگلادیش سے ورکرلانے کی دھمکی دی۔
ترک صدر نے کہا ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سےپہلے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیِں۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کی صورت میں اسٹیٹ بینک میں رکھی ہوئی رقم کو بھی واپس نکال لیا جائے گا۔
رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ 'یہ کسی بھی ملک کے لیے پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مخصوص معاملات پر دباؤ ڈالا ہو'۔ اردوغان نے ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان کو معاشی دشواریوں کے باعث سعودی عرب کی خواہشات پر عمل کرنا پڑا'۔
دوسری طرف پاکستان میں سعودی سفارت خانے نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر پاکستان کو مجبور کرنے اور دھمکانے کی خبروں کی تردید کردی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال کی جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات دیرینہ اور اسٹریٹیجک ہیں جو اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی اور بین الاقوامی مسائل خاص طور پر امت مسلمہ کے معاملات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سفارت خانہ یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہم ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ایک کامیاب اور مستحکم ملک بننے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
واضح رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ترک صدر کے بیان پر براہ راست کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'مسلم امہ کی ممکنہ تقسیم روکنے کے لیے کئی اہم مسلم ممالک کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے، اس لیے پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔'
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'پاکستان مسلم امہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا، جو مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے۔'
خیال رہے کہ پاکستان ان پہلے ممالک میں شامل تھا جن سے رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے سمٹ کے انعقاد کا ارادہ شیئر کیا تھا۔
بعدازاں ملائیشیا کے نائب وزیر خارجہ مرزوکی بن حاجی یحیی نے 29 نومبر کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جسے وزیراعظم نے قبول کرلیا تھا۔
تاہم گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا منسوخ کرنے کی اطلاعات گردش میں تھیں اور 14 دسمبر کو سعودی عرب کے دورے کے بعد انہوں نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق وزیراعظم، سعودی عرب کی جانب سے دباؤ ڈالنے کی وجہ سے اجلاس میں شرکت سے دستبردار ہوئے جس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے ابتدائی دنوں میں معاشی بحران سے نکلنےکے لیے مدد کی تھی۔
بعدازاں 17 دسمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی تھی کہ 18 دسمبر سے کوالالمپور میں شروع ہونے والے 20 ممالک کے اجلاس میں پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔
شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی تھی کہ سربراہی اجلاس سے سعودی عرب اور متحدہ عرب کو تحفظات تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ممالک پریشان تھے کہ اجلاس سے ’ امہ میں تقسم ‘ ہوسکتی ہے اور اسلامی تعاون تںظیم( او آئی سی ) جیسی ایک تنظیم قائم ہوسکتی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اجلاس سے متعلق تحفظات کے تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان، ریاض اور کوالالمپور کے درمیان خلا کر پُر کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو سمٹ میں شرکت نہیں کی جائے گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ وزیراعظم کے دورے کا مقصد سعودی عرب اور ملائیشیا کو قریب لانا تھا، اجلاس میں شرکت کی اجازت لینا نہیں تھا۔