امریکہ آل سعود کی زیادتیوں پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے


واشنگٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نے کہا ہے کہ اگرچہ امریکہ، سعودی عرب کو اپنے ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ سے اس کے خود بادشاہی نظام کے اندر کی زیادتیوں اور اس کے ساتھ ساتھ یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مختلف جنایات پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے نمائندے سے ایک انٹرویو میں پروفیسر ڈاکٹر ڈینیل کارویٹ نے اس بیان کے ساتھ کہ سرد بغاوت کے بعد ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، کہا کہ امریکہ خطے میں ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان تعلقات کو بین الاقوامی برادری کے سامنے اچھا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ یہ بعید نظرآتا ہے کہ امریکہ گولن کوجلاوطن کرے۔

دوسری طرف، امریکہ ترکی کو حالیہ فوجی بغاوت کی حوصلہ افزائی کرنے کا، ذمہ دار ٹھہراتا ہے.

ترکی اقتصادی طور پر کسی بھی صورت میں متاثر ہوگا اور دوسری طرف مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ کھویے جارہا ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نے تسنیم نیوز ایجنسی کے نمائندے کے سوالات کے کچھ یوں جوابات دئے:

آپ کو اس حالیہ بغاوت کے بعد ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کیا تبدیلی نظرآتی ہے؟

امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان تعلقات کو اچھا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حقیقت میں ایسی بات نہیں ہے۔

بعید نظرآتا ہے کہ امریکہ گولن کوجلاوطن کرے۔ دوسری طرف، ترکی امریکہ کو حالیہ فوجی بغاوت میں قصوروار ٹھہراتا ہے۔ اگرچہ اس طرح کی تشریح درست نہیں ہے تاہم یہ خیال وسیع پیمانے پر ترکی میں پایا جاتا ہے.

اس تبدیلی کی وجہ سے ترکی کے لئے کیا نتائج ہوں گے؟

اردوگان اگر اپنے موجودہ را ستے پر چلنا جاری رکھتا ہے تو یورپ اور امریکہ کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھےگا۔ ترکی اقتصادی طور پر کسی بھی صورت میں متاثر ہوگا اور دوسری طرف مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھےگا۔

سعودی عرب کےیمن پرحملہ آور ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گذر گیا ہے اور بہت یمنی شہری مارےگئے ہیں، کیوں امریکہ خود کوانسانی حقوق کا علمبردار متعارف کراتا ہے اور ایک سنجیدہ رد عمل ظاہر نہیں کرتا؟

اگرچہ امریکہ سعودی عرب کو اپنے ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اس لئے ہمیشہ سے سعودی عرب کی خود بادشاہی کے اندر زیادتیوں اور اس کے ساتھ ساتھ یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مختلف جنایات پراپنی آنکھیں بند کئے خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے اس میں سے کوئی بات نئی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، سابق سوویت یونین کو یاد کرو. مصر، جمال عبد الناصر کے زمانے میں سوویت یونین کا ایک اہم اتحادی شمار ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ جب عبد الناصر، مصری کمیونسٹوں کو قید کرتا تھا اور ہلاک کرتا تھا تو سوویت یونین اس کی حمایت سے ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا۔ امریکہ سمیت، تمام طاقتیں اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے کوششیں کرتی ہیں یہاں تک کہ جن رویوں کو وہ پسند نہیں کرتے، ان کے مقابلے میں صبر دکھاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کسی خاص رد عمل کا اظہار کیوں نہیں کرتا؟

اقوام متحدہ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسا کام ہرگز نہیں کریگا جس کے نتیجے میں اسے سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں میں سے ایک یعنی امریکہ کے ساتھ ٹکر لینا پڑے۔

اعداد اور ارقام ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں فوجی بجٹ میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی خریداری سب سے زیادہ امریکہ اور مغربی ممالک سے ہوتی ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک خطے میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے لئے زیادہ ایندھن فراہم کر رہے ہیں، آپ کی کیا رائے ہیں؟

سویڈن کی طرح ایک پرامن قوم سمیت ہتھیاروں کے تمام بڑے دکاندار، کسی بھی ملک کو جو انہیں پیسہ دے ہتھیار فروخت کرنے کے لئے تیار ہیں مگر سوائے ایک دشمن، ایک ممکنہ دشمن یا دشمن کا حلیف شمار ہوتا ہو۔

امریکہ ایک بہت بڑا اسلحہ فروش ملک ہے اور اس کی کمپنیاں ہتھیاروں کی فروخت کے ذریعے سے بہت پیسہ کماتی ہیں۔ روس، چین، فرانس اور سویڈن کی طرح کےکچھ چھوٹے ممالک بھی ہتھیارفروش ممالک میں شمارہوتے ہیں۔ کسی بھی صورت میں جو ممالک ارادہ رکھتے ہیں کہ اپنے پیسوں سے ہتھیاروں کی خریداری کرے اور اگر ایسی صورت میں امریکہ انکار کرے اور اسلحہ فروخت نہ کرے تو وہ ممالک ایک اور اہم ہتھیار فروش کی جانب رجوع  کریں گے۔

دوسری طرف، دوسروں، خاص طور پر اسرائیل اور مصر، امریکی اسلحے کی فروخت کے لین دین میں مطلوبہ مقصد رکھنے والے شمارہوتے ہیں کیونکہ امریکہ سوچتا ہے کہ ان دونوں کو ہتھیار فروخت کرنا اس کے مفاد میں ہے اور اسی طرح امریکہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسرائیل ایک بہت ہی قریبی دوست اور نظریاتی اتحادی ہے۔

آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرف سے ہتھیاروں کی فروخت مشرق وسطی میں تنازعات کی بنیادی وجہ نہیں ہے تو پھر دیگر کن عوامل کی وجہ سے یہ تشدد پیدا ہوا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے؟

اگرچہ اسلحہ تشدد میں اضافے کا بنیادی سبب ہے لیکن یقینی طور ناامنی اور تشدد کا کچھ حصہ بیرونی عوامل کی مداخلت کی وجہ سے ہے، نہ صرف ہتھیاروں کی فروخت میں، دوسرے الفاظ میں مشرق وسطی کے لوگ  یہ فرض نہ کریں کہ خطے میں جھڑپوں میں اضافے کی صرف بنیادی وجہ یا علاقے میں تشدد میں اضافے کا اصلی عامل اسلحہ ہے۔ مختلف قومی امنگوں کے درمیان جھڑپیں، مسلم کمیونٹی کی مختلف شاخوں کے رجحانات اور یہاں تک کہ قبائلی تنازعات اہم عوامل میں شمار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر بڑی طاقتیں، روس اور امریکہ مکمل طور پرمیدان چھوڑ دیں تب بھی کوئی چیز اس عمدہ مشکلات کو حل نہیں کر سکتی ہے۔

مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ بڑی طاقتوں کی مداخلت اور ہتھیاروں کی فروخت سارے حالات کے بگڑنے سمیت بدتر ہونے کا سبب ہے لیکن یہ خطے میں تنازعات کی صرف ایک وجہ نہیں اور یہ بات سراسر درست نہیں ہے۔ ایسی صورت حال مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی فروخت کو تقویت دیتی نظر آتی ہے لہٰذا ہتھیاروں کی فروخت کو زیادہ سے زیادہ مسائل کی ایک بڑی علامت کہا جاسکتا ہے اور اسے مکمل وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

امریکی صدارتی انتخابات میں کس کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں؟

تمام جائزوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کلنٹن انتخابات جیتی گی البتہ اس کا مطلب اس امیدوار کی مقبولیت نہیں ہے بلکہ صرف اس وجہ سے ٹرمپ سے آگے بڑھی ہے کہ ٹرمپ اس سے زیادہ غیر قابل اعتماد اور غیر معروف ہے۔