یاور عباس: تسنیم نیوز ایجنسی پاکستان اور ایران کو قریب لانے میں اردو میڈیا کے لئے ایک نمونہ ہے/ تصویری رپورٹ


فارسی، عربی ،انگریزی اور ترکی زبانوں کے بعد خبررساں ادارے تسنیم کے شعبہ اردو اور برصغیر پاک و ہند کے خصوصی دفتر کی افتتاحی تقریب ہفتہ 03 ستمبر کو حرم مطہر امام رضا علیہ السلام میں منعقد ہوئی جس میں تسنیم نیوز کے منیجنگ ڈائریکٹر کے علاوہ مشہد میں پاکستان کے قونصل جنرل اور سینکڑوں پاکستانیوں نے شرکت کی۔

تسنیم نیوزایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تسنیم نیوز کی شعبہ اردو اور برصغیر کے خصوصی دفتر کی باضابطہ طور پر افتتاحی تقریب ہفتہ 3 ستمبر کو منعقد ہوئی جس میں اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوری پاکستان کے حکام کی ایک بڑی تعداد، تسنیم خبررساں ادارے کی انتظامیہ، میڈیا اور دونوں ممالک کےدانشوروں نے بھر پور شرکت کی۔

اس پروقار تقریب میں اسلامی جمہوری پاکستان کے قونصل جنرل جناب یاور عباس خصوصی طور پر شرکت کرتے ہوئے اردو زبان کی اہمیت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔

ان کے علاوہ تسنیم نیوز ایجنسی کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب مجید قلی زادہ، چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر جناب مقدم فر اور حرم امام رضا علیہ السلام کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جناب توکلی زادہ نے بھی خطاب کیا۔

قونصل جنرل پاکستان جناب یاور عباس کے خطاب کا متن ذیل میں پڑھئے:

میں تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور بےحد مشکور ہوں خبررساں ادارے تسنیم کے مینیجنگ ڈائیریکٹر جناب مجید قلی زادہ، چئیرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز جناب مقدم فر اور شعبہ اردو کے ڈائریکٹر جناب تقی صادقی کا جنہوں نے مجھے تسنیم نیوز کی افتتاحی تقریب میں خطاب کا موقع دیا۔

میں نہ صرف پاکستانی قونصل خانے کے سربراہ کی حیثیت سے بلکہ ذاتی طور پر بھی آج کی اس پروقار تقریب کے انعقاد پر جتنی خوشی کا اظہار کر سکوں اتنا کم ہے کیونکہ اس اجتماع کی مناسبت ہماری قومی زبان اردو سے ہے اور کیا ہی اچھا ہے کہ تسنیم اردو کی رونمائی کی تقریب حرم مطہر امام رضا علیہ السلام میں منعقد ہو رہی ہے کیونکہ اس سے بابرکت آغاز کہیں بھی ممکن نہیں۔

مجھ سے کبھی کبھار کچھ دوست اور احباب گلہ کرتے ہیں کہ آپ انگریزی میں تقریر کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کی قومی زبان اردو ہے۔ امید ہے کہ آج میں ان کا گلہ دور کر دوں گا۔ انگریزی زبان ہماری سرکاری زبان ہے جبکہ اردو زبان ہمارے دل کی زبان ہے۔ یہ ہماری رگوں میں دوڑتی ہے، یہ ہماری روح میں گھل چکی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کی آواز ہے۔ پاکستان اور اردو زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ مولوی عبدالحق تو کہتے ہیں کہ اردو زبان کو تو فارسی اور عربی پر بھی فوقیت حاصل ہے کیونکہ اردو ہی وہ واحد زبان ہے جس نے اسلام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ یہ تب پیدا ہوئی جب برصغیر میں ترک، عرب اور فارسی مسلمانوں کا آپس میں تعلق بنا۔

اب اس ایک اہم پہلو پر اکھٹے ہوتے ہیں جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا کہ آخر انگریزی زبان کیونکر ہماری اپنی زبانوں پر فوقیت لے گئی ہے؟ ایسا کیا ہوا کہ آج مجھے بازار میں اپنی ٹوٹی پھوٹی فارسی بولنی پڑتی ہے، گھر میں پشتو، دفتر میں اردو جبکہ سرکاری موقعوں پر انگریزی؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انگریزی زبان اردو اور فارسی کی نسبت دنیا بھر میں زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں ایک خوبصورتی ہے اور شاید ہی کوئی زبان ہو جس میں ادب اور شاعری کی مٹھاس نہ ہو۔ مگر زبان کا اس سے بولنے والوں سے گہرا تعلق ہے۔ آج ایران میں انگریزی اردو سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں فارسی سے زیادہ انگریزی بولی، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے حالانکہ برصغیر میں 800 سال سے فارسی زبان بولی جاتی تھی اور فارسی زبان ہماری اپنی زبان تھی پھر آج کیا ہوا کہ ایرانی دوستوں سے فارسی کے بجائے انگریزی میں بات کرنی پڑتی ہے کیونکہ اردو انہیں نہیں آتی، فارسی ہمیں نہیں آتی۔  اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارا اتحاد کمزور ہو گیا ہے۔ ہم ایک جیسے لوگ تھے اور اب بھی ہیں مگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم جدا ہیں۔ اقبال کہتے ہیں

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا                    نہ  تورانی  رہے  باقی،  نہ  ایرانی  نہ  افغانی

بدقسمتی سے یہ رنگ و خون و نسل و قومیت کی زنجیریں گوروں نے تو توڑ دیں، مسلمان بیچارے پھنس کے رہ گئے۔

اتحاد کی کمی کے علاوہ دوسری بڑی وجہ مسلمانوں کا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے۔ جتنی ہم سائنس، ثقافت، تمدن، اقتصاد، تجارت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کریں گے اتنی ہی ہماری بولی کو فروغ حاصل ہوگا۔ آج لوگ دنیا بھر میں چینی زبان سیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ان کی اقتصادی اور معاشرتی قوت ہے۔

میرے خیال سے تسنیم نیوز کی یہ کاوش پاکستان اور ایران کو قریب لانے میں ایک بہت مؤثر قدم ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کی زبانوں کو اتنی اہمیت دیں جیسے کہ تسنیم نیوز نے دی ہےتو وہ وقت دور نہیں ہوگا جب میں اپنے ایرانی بھائیوں سے فصیح و بلیغ فارسی میں بات کروں گا جبکہ وہ سلیس اردو میں جواب دیں گے۔ یہ بات کوئی افسانوی نہیں کیونکہ یورپ میں ہر دوسرا شخص ایک سے زیادہ یورپی بولیاں جانتا ہے۔

میں ایک اور بات پہ بھی زور دوں گا کہ تسنیم نیوز کو اور اس طرح کے دوسرے ایرانی خبررساں اداروں کو اردو زبان کی توجہ کے علاوہ دونوں برادر اسلامی ممالک پاکستان و ایران کوقریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بدقسمتی سے یہاں کے کچھ خبررساں ادارے پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کی افواہوں پر مبنی خبریں دیتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پاکستان اور ایران 2 بھایئوں کی طرح ہیں اور دونوں کی ترقی ایک دوسرے کی ترقی میں ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی پیچھے رہ گیا تو دوسرا آگے نہیں جا پائے گا اور یہ دونوں بھائی پڑوسی بھی ہیں۔ ہماری 912 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں ایک بات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ کوئی بھی ملک کچھ بھی کر سکتا ہے مگر پڑوسی نہیں بدل سکتا اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہم صرف پڑوسی نہیں بلکہ ہمارا رشتہ تہذیب، تمدن، ایمان، تاریخ اور بھائی چارے کا ہے۔

میں سارے ایرانی خبررساں اداروں کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے پچھلے دنوں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پہ کافی خبریں چھاپیں۔ مگر بدقسمتی سے انہوں نے پاکستان کو بھی نہیں بخشا حالانکہ ہم تو کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کرتے ہیں جیسے کہ ایران و پاکستان فلسطینیوں کو جائز حق دلانے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں ایران کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات پر اعتراض نہیں، مگر میری یہ بات آپ یاد رکھیں کہ بعض ملکوں کی ایران کے ساتھ دوستی صرف مطلب کی بنیاد پر استوار ہے۔ ایرانی خبررساں اداروں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس موسمی دوستی اور تعلق سے اس کے برادر ملک پاکستان کو کبھی ضرر نہ پہنچے۔ کوئی بھی خبر لگاتے وقت صحافی کو 10 بار سوچنا چاہئے کہ کہیں یہ خبر کوئی غلط فہمی تو پیدا نہیں کرے گی؟ ذمہ دارانہ صحافت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ قلم کا استعمال انصاف سے کرتا ہے اور کسی کی حق تلفی نہیں ہونے دیتا۔

میں بطور ایک پاکستانی سفارتکار، آپ کو بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں ایران کو بڑی عزت اور محبت سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ہمارے لوگ خاص طور پہ صحافی کبھی ایران کے خلاف قلم کا غلط استعمال نہیں کرتے۔ میں تسنیم نیوز کے توسط سے سارے خبررساں اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ ایران میں بھی ایسا ہی ماحول پیدا کریں۔ اگر کسی خبر میں پاکستان کے بارے میں مثبت خواہشات کا اظہار نہیں کر سکتے تو منفی بات سے بھی گریز کریں کیونکہ اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔

پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور ہم نے اس کےحصول کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور اس کی بقا کے لئے آج تک عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔ اگر دشمن کی چالوں میں ہمارے دوست اور برادر اسلامی ملک دھوکا کھا جائیں گے تو ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

مجھے آج بہت فخر ہے کہ ہم نے پاکستان کی زبان اور پہچان اردو کی ترقی کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہ نہ بھولئے گا کہ اردو کی پاکیزگی کو بھی بہت خطرات لاحق ہیں۔ اردو کا اسلامی تشخص مٹانے کے لئے گوروں نے برصغیر میں کافی کام کیا۔ پہلے انہوں نے فارسی کے سرکاری استعمال پر پابندی لگا دی پھر اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ کو سنسکرت کے الفاظ سے تبدیل کیا۔ خوش آمدید، نمستے ہو گیا اور السلام وعلیکم پرنام ہو گیا۔ اگر یہ ارتقائی عمل ہوتا تو ہمیں اتنا اعتراض نہ ہوتا لیکن یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تعلیمی اداروں میں کروایا گیا۔ آج بدقسمتی سے ہمارے مشرقی پڑوسی کی وساطت سے دنیا میں اکثر جگہوں پہ بشمول ایران کے اردو کو یا تو ہندی کہا جاتا ہے یا ہندی کو اردو کہا جاتا ہے۔ اردو ایک مکمل زبان ہے اور اس کی ایک روح ہے۔ اس میں مصنوعی پن نہیں ہے۔ اس کی تخلیق کسی گورے کے تجربہ گاہ میں نہیں ہوئی۔ اس کا تشخص قدرتی طور پر اسلامی ہے، کسی کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں۔ لگتا ہے کہ اردو کی تخلیق ہی ادب اور ذوق کے لئے کی گئی ہو۔ جبھی تو ساری نعتیں، حمد، غزلیں، قوالیاں اور یہاں تک کہ بولی وڈ ہندی فلموں کا تقریبا ہر گانا اردو زبان میں ہی ہوتا ہے۔

عموما زبان یا ملک کی مذہبی شناخت نہیں ہوتی مگر اردو زبان کی ایک اسلامی شناخت ہے۔ جس طرح پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسی طرح اردو بھی مسلمانوں کے اسلامی اقدار، قریبی روابط، محبت و الفت اور باہمی اتحاد کی وجہ سے معرض وجود میں آئی۔ جبھی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کا ہی پاکستان کی قومی زبان کے طور پر انتخاب کیا۔   

آخر میں اپنی تقریر کا اختتام داغ دہلوی کے اردو زبان کے بارے میں ایک شعر سے کروں گا؛

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ                          سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

آخر میں تسنیم نیوز ایجنسی کے اردو سیکشن کے افتتاحی تقریب کی تصویری جھلکیاں مشاہدہ فرمائیں: