ہم پاکستان میں بھی ایک "خمینی" چاہتے ہیں
ریڈیو پشتو کے ڈائریکٹر اور ایران عراق جنگ میں شرکت کرنے والے پاکستانی صحافی کہتے ہیں کہ امام خمینی (رہ) نے اپنی رحلت سے پہلے ہم سب کو آسودہ خاطرکردیا کہ ایران اب اپنا راستہ کھونے والا نہیں ہے اس لئے ہم ہر جگہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: جیسا کہ پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جان پاکستان» قارئین کی خدمت میں ہفتہ وار شائع کی جائیگی اور اس کی پہلی قسط "ہمالیا کے کسی قھوہ خانے میں امام خمینی کی تصویر سے لیکر خرمشہر کی آزادی کےلئے روزوں کی منت تک" کے نام سے گزشتہ ہفتے شائع ہو چکی ہے۔
آج کے قسط میں ایک پاکستانی صحافی کا انٹرویو پیش خدمت ہے۔
"کاظم صاحب کیا آپ ابھی تک فرنٹ لائن پر تھے؟ سلحشور: جس جگہ پر میں تھا وہ فرنٹ لائن سے کم نہیں تھی بھائی"۔
''حاتمی کیا'' کی پاکستان کے مجاہد عاشق حسین کے ساتھ تاریخی گفتگو باربار ہمارے ذہنوں میں گونجتی رہتی ہے۔
''عاشق حسین طوری دو سال تک ایرانیوں کے ساتھ عراق کے خلاف جنگ لڑتا رہا''
یہ شاید ایرانیوں کے لئے ایک عام سا جملہ ہو لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک پاکستانی جو ایران سے ہزاروں کلومیٹر دور رہتا ہے اور ایرانیوں کے ساتھ بغیر کسی وابستگی کے، ان پر اپنی جان قربان کرنےکی غرض سے سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسرے ملک ''ایران'' کو بچانے کی خاطر ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے حتیٰ کہ جان تک دینے پر تیار ہوجائے۔
حالانکہ جنگ کے دوران خود ایران کے اندر بہت سارے ایرانی کسی بھی صورت جنگی محاذ پر جانےکو تیار نہیں تھے بلکہ دوسرے کاموں میں مصروف رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس حالت میں طوری صاحب وطن، ماں باپ، رشتہ دار سب کو خدا حافظ کہہ کر ایران کی حفاظت کی خاطر عراق کی سرحدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔
حسین طوری آج کل ریڈیو تہران شعبہ پشتو کے ڈائریکٹر ہیں۔
پاکستان میں ایران کی طرف سے کھوئےہوئے ثقافتی موقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہےکہ کئی مرتبہ ایرانیوں سے کہا کہ کبھی کبھار سرحد پار دنیا کو بھی دیکھا کرو اور جان لو کہ ایران اتنا چھوٹا نہیں ہے جتنا تم تصور کرتے ہو، اس کے علاوہ یہ بھی جان لو کہ ایران صرف ایرانیوں کے لئے نہیں ہے۔ ایران کی تقدیر تمام مسلم امہ کی تقدیر سے وابستہ ہے۔
لیکن عاشق حسین کہتا ہے کہ امام خمینی نےدنیا سے رحلت کرتے ہوئے ہم سب سے کہا تھا کہ اب وہ اطمینان کے ساتھ ملک الموت کو لبیک کہنے جارہے ہیں۔ امام خمینی کی اس اطمینان نے ہم سب کو بھی مطمئن کردیا تھا کہ اب ہمیں ایران کے متعلق فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن "پاکستان" کا خمینی کہاں ہے؟
عاشق حسین طوری کے ساتھ تسنیم خبر رساں ادارے کی گفتگو پیش کی جارہی ہے:
تسنیم:جناب طوری ہم بھی جاتنے ہیں اور آپ بھی کہ اس وقت ایرانی اور پاکستانی قوم ایک دوسرے کے ساتھ نہایت قریب ہیں لیکن ایرانی میڈیا اور ایران کے ثقافتی حکام ایسا نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں ایرانی انقلاب کے اثر کی واضح نشانیاں اور پاکستانیوں کی ایران سے وابستگیاں دیکھیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایرانی میڈیا اور ثقافتی امور کے اداروں کو اس کا علم تک نہیں ہے۔ ہم اپنی گفتگو کا آغاز ایران میں اسلامی انقلاب کی شروعات سے کرتے ہیں، جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو پاکستان میں کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی؟ ایرانی انقلاب کا پاکستانیوں کے ساتھ کیا واسطہ تھا؟
طوری: آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی اکثریت کا تعلق اہلسنت برادری سے ہے اس کے باوجود پاکستانی قوم ایرانی انقلاب کو اپنا انقلاب سمجھتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم خود کو ایران سے جداہونےکا تصور بھی نہیں کرتی۔
پاکستانی ''شیعہ، سنی'' قوم کا یہی خیال ہے کہ 37 سال قبل ایران اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تھا اور آج تک عالمی استعماری طاقتوں کے سامنے آہنی دیوار کی مانند کھڑا ہے جس کی وجہ سے تمام تر امریکی مکاریوں اور غلبوں سے محفوظ ہے۔
آٹھ سالہ جنگ
بغاوت کی سازش، طبس شہر اور 2008-09 کے واقعات میرے خیال میں آٹھ سالہ جنگ سے بھی زیادہ خطرناک تھے۔
پاکستانی قوم کا خیال ہے کہ چونکہ ایرانی انقلاب دین مبین اسلام کی بنیاد پر رونما ہوا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ ایرانی قوم کا حافظ و ناصر ہے۔ جس طرح امام خمینی نے فرمایا تھا کہ امریکہ کچھ نہیں کرسکتا، پاکستانی قوم کا بھی یہی خیال ہے۔
پاکستانی قوم جانتی ہے کہ ایران کفر کے مقابلے میں کھڑا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت کی وجہ سے ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ اسلامی بیداری کی لہر ایرانی انقلاب ہی کی مرہون منت ہے۔
اسلامی بیداری کو روکنے اور سعودی عرب سمیت عرب بادشاہتوں کی حفاظت کے لئے ایران کے دشمنوں نے مل کر شام میں خانہ جنگی شروع کروائی۔
اتفاق سے چند دن پہلے میں ایک اہل سنت عالم سے ریڈیو پشتو میں انٹرویو کررہا تھا۔ ان کا ایران کے بارے میں کہنا تھا کہ ایران دنیا میں اسلام کا دفاع کرنے والا واحد ملک ہےاور باقی اسلامی دنیا کے اکثر حکمران آمر اور جابر ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب نے پاکستان میں خاص طور پر اہل سنت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے پھر بھی وہ اپنے مقاصد میں ناکام رہے ہیں کیوںکہ پاکستانی ایران کے ہی حامی ہیں۔
تسنیم: بڑی دلچسپ بات ہے، ایران میں عام تصور ہے کہ پاکستانی قوم میں صرف شیعہ ایران کے حامی ہیں اور اہل سنت برادری ایران سے لاتعلق ہے۔
طوری: اگر آپ وہ خطوط دیکھی لیں جو ریڈیو پشتو کو اہل سنت برادری نے امام خمینی کی تعریف اور تمجید میں لکھے ہیں تو حیران رہ جائیں۔ ایسے خطوط لکھنے والوں بہت بڑی تعداد ہے۔
آپ ان خطوط اور انٹرویوز کا مطالعہ کرکے شائع کریں، ایرانی قوم کو سرحد پار ایرانی انقلاب کے اثرات دکھائیں۔
جب ہم اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو صرف ایک ملک کے انقلاب کی بات نہیں کررہے ہوتے۔
ایرانی عوام کو اہل سنت برادری بالخصوص پاکستان پر انقلاب کے اثرات کا علم ہونا چاہئے۔ انہیں دنیا پر انقلاب کے اثرات کو بھی دیکھنا چاہئے تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ انہوں نے انقلاب لا کے کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
ہمیں پاکستان میں ایک خمینی کی ضرورت ہے
یہ جاننا ضروری ہے کہ ایران کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملک صرف ایرانیوں کا ہے۔ ایران مستضعفین عالم کے لئے پناہ گاہ ہے، ایران کی کامیابی عالم اسلام کی کامیابی ہے۔
ہم پاکستان کے ہر کونے سے یہ آواز سنتے ہیں کہ ہر کوئی پکار پکار کر کہتا ہے کہ ہمیں بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے، جب تک ایک خمینی پیدا نہ ہوگا تب تک ہمارے درد کی دوا ممکن نہیں ہے۔
ایران بھی انقلاب سے پہلے امریکہ کا غلام تھا لیکن امام خمینی نے اس ملک کو غلامی سے نجات دلوائی جس کی وجہ سے آج وہ ایک طاقت کے طور پر آپ کے سامنے ہے۔
میں آپ کو مختصر طور پر بتاؤں کہ پاکستانی اور ایرانی ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی دوری نہیں ہے۔
ایران عراق جنگ میں کتنے ہی پاکستانیوں نے انقلاب پر اپنی جانیں قربان کیں/ یہاں پاکستان اور ایران والی بات نہیں ہے۔
تسنیم:پاکستان اور ایران کے ایک ہونے کی کچھ نشانیاں بیان کیجئے۔ میرے خیال میں ایرانی میڈیا پاکستان سے کافی دور ہے لہٰذا اب ہمیں کھل کربات کرنے کی ضرورت ہے۔ انقلاب سے اب تک کے پینتیس سالہ تاریخ میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کے بارے میں میڈیا نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ہے۔
طوری: میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ایران عراق جنگ میں انقلاب پر کئی پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ میں خود محاذ جنگ پر دوسال تک ''صدام'' کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور میں اب بھی جنگ کی ان عظیم یادوں کو بھول نہیں سکا۔ میرے خیال میں ایران - عراق جنگ دراصل ایک عالمی جنگ تھی۔ دشمن صرف صدام نہیں تھا بلکہ تمام عرب ممالک اور عالمی طاقتیں بھی صدام کے ساتھ تھیں۔
وہ صدام کو ہر قسم کی تسلیحاتی اور مالی معاونت فراہم کیا کرتے تھے۔ ایران پرحملہ ہی امریکی اشارے پر کیا گیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ انقلاب کو اس کی شروعات میں ہی ختم کیا جائے۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک حسینی تحریک ہے اور اس کی جڑیں کربلا سے ملتی ہیں۔ ایران نے پوری دنیا کے ساتھ آہنی دیوار بن کر مقابلہ کیا ہے۔ اسی سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایران کا انقلاب صرف ایک خاص ملک سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ عالم اسلام کا انقلاب ہے۔
جب ہم پاکستان میں تھے تب بھی ہمارا یہی نظریہ تھا جس کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ کر جہاد کے لئے یہاں آئے اور انقلاب کے لئے جہاد کیا جس میں بہت سے پاکستانی شہید ہوگئے۔
میں صدام کے ایران پر حملے کو ایک نعمت سمجھتا ہوں، اس کی وجہ سے ایران خانہ جنگی سے بچ گیا کیونکہ منافقین اور کمیونسٹ نظریہ رکھنے والے لوگوں کو یہ انقلاب ہرگز قابل قبول نہیں تھا اور وہ سڑکوں پر آکر انقلاب کے خلاف قیام کرنا چاہتے تھے۔
اگرصدام کی طرف سے حملہ نہ ہوتا تو بغیر کسی شک کے ایران خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔
تسنیم: کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ میں شرکت کرکے شاید آپ کو بہت ہی خاص تجربہ حاصل ہوا ہوگا۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے جنگ کے دوران کی کوئی اہم بات بتانا پسند فرمائیں گے۔
طوری: حقیقت یہ ہے کہ میں ایران کو دوسروں کا ملک نہیں سمجھتا تھا۔ میری نظر میں پاکستان اور ایران میں کوئی فرق نہیں تھا اور اب بھی دونوں ملکوں کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتا ہوں۔
لیکن جنگ کی یادوں میں سے کچھ یادیں ایسی ہیں کہ چاہتا ہوں کہ ایرانی قوم کو بتاؤں وہ یہ ہے کہ جنگ کے شروع میں ایران کے پاس دفاع کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا حتیٰ ایران کے پاس کانٹےدار تار تک نہیں تھی۔ اس کے باوجود ایرانی قوم نے استقامت دکھائی اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے۔ جس کی وجہ سے آج ایران ہر چیز میں خودکفیل بن چکا ہے۔
جنگ ہم (پاکستانیوں) اور ایرانیوں کے لئے خود سازی کی ایک درس گاہ تھی۔ بہت سے جوانوں نے محاذ جنگ میں جا کر تذکیہ نفس کیا۔ آج جو امریکہ ایران کے خلاف جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتا اس کی وجہ یہی جنگ، اللہ پر پکا ایمان اور شہدا کا خون ہے۔
امام نے ہم سب کو ایران کے بارے میں اطمینان دلا دیا
تسنیم: میں نے سنا ہے کہ پاکستانی قوم حالیہ برسوں میں بھی ایران کی داخلی سیاسی حالات پر نظر رکھے ہوئی ہے۔ میرا ایک دوست بتا رہا تھا کہ جب آقائے خاتمی ایران کے صدر بنے تو بہت سارے پاکستانیوں نے ان سے رابطہ کیا اور ایران کے مسقبل کے بارے میں سوالات کرنے لگے کہ اب ایران میں کیا ہونے جارہا ہے؟ حتیٰ 2009ء کے تہران فتنے کے متعلق پاکستانی سخت تشویش میں مبتلاء ہوگئے تھے۔
طوری: جی ہاں، پاکستانی پوری شد ومد کے ساتھ ایران کی خبروں کو پڑھتے ہیں اور ایران کی داخلی سیاسی صورت حال کی بہت اچھی طرح مانیٹرنگ کررہے ہیں۔
پاکستانی لوگ ایران کے گذشتہ انتخابات کے بارےمیں بھی سخت پریشان تھے اور بہت ساروں نے خود مجھ سے انتخابات کے بارے میں سوالات کئے کہ ان انتخابات سے ایران پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ میری حالیہ دنوں میں ہی پاکستان آرمی چیف اسلم بیگ سے ملاقات ہوئی تو خود ان کے ذہن میں بھی یہی سوال تھا کہ جناب آقائے روحانی کس قسم کے انسان ہیں؟ انقلاب کہیں خطرے میں تو نہیں؟ میں نے جواب میں کہا کہ امام خمینی دنیا سے جاتے ہوئے بتا کر گئے تھے کہ انقلاب محفوظ ہے انقلاب کے بارےمیں مجھے کوئی فکر نہیں ہے، امام نے یہ ایسے ہی نہیں کہا تھا بلکہ ان کو یقین تھا کہ اسلامی نظام میں کوئی بھی شخص خلل نہیں ڈال سکتا کیونکہ نظام اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ جو بھی صدر آئےگا وہ ولایت فقیہہ کا ہی تابع ہوگا۔
آقائے خاتمی بھی ہمارے لئے امام راحل کے فرزند جیسے ہیں/ 2009ء کے فتنے میں پاکستانی سخت پریشان تھے
2009ء کے فتنے میں بہت سے پاکستانیوں کو یہ خوف تھا کہ کہیں انقلاب کو کچھ ہو نہ جائے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان، عراق اور خلیجی ممالک میں بھی یہی تشویش پائی جاتی تھی۔
جب میں ایرانی برادران سے ملتا ہوں تو انہیں کہتا ہوں کہ جتنا پاکستانیوں کو انقلاب کی فکر ہے اتنی تمہیں نہیں ہے۔ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ایران وہ واحد ملک ہے جو عالمی طاقتوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا ہے ۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے ایران پر قبضہ نہیں کرسکتا ہے اسی لئے اس کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ایران کو داخلی طور پرمشکلات میں ڈالا جائے۔ 2009ء کی بغاوت کی کوشش امریکی چالوں میں سے ایک چال تھی۔
امریکی جب پاکستان آتے ہیں تو ساری سڑکیں بند ہوجاتی ہیں / پاکستان میں امام خامنہ ای کا جو استقبال ہوا تھا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
تسنیم: میرے خیال میں پاکستانیوں نے جس جوش اور جذبے کے ساتھ امام خامنہ ای کا استقبال کیا اس کی مثال نہیں ملتی یہاں تک کہ امام خمینی بھی اس استقبال سے نہایت خوش ہوئے تھے۔
طوری: واقعا اس کی مثال نہیں ملتی، یورپی حکمرانوں کے علاوہ عرب ممالک کے حکمرانوں نے بھی پاکستان کے مختلف دورے کئے اور کررہے ہیں لیکن کسی کو اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی ایرانی صدر کو ملی تھی۔ ایسا استقبال دیکھ کر خود پاکستان کے صدر بھی گھبرا گئے تھے۔
جب کوئی امریکی پاکستان کا دورہ کرتا ہے تو استقبال تو دور کی بات ہے، اس ملک کی سڑکیں تک بند ہوجاتی ہیں۔
آقائے احمدی نژاد نے پاکستانی حکومت سے بارھا درخواست کی کہ ان کو پاکستان کے عمومی دورے پر آنے کی اجازت دی جائے لیکن پاکستان نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ اس انکار کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کا بھی نہایت گرم جوشی سے استقبال ہونے کا خدشہ تھا۔
آقائے خامنہ ای کی بات تو الگ ہے جب ایران سے کوئی عام مسئول بھی پاکستان جاتا ہے تو نہایت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔
تسنیم:ہمیں اب معلوم ہوا کہ پاکستان ایران سے کتنا قریب ہے۔ آپ کے خیال میں پاکستان کے اندر اسلامی انقلاب کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں خود ایرانیوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ کس قدر انقلاب کی لہریں پاکستان میں پھیلائی گئیں؟ ایرانیوں نے کس حد تک پاکستان میں ''جو اسلامی انقلاب کی جڑوں کی تقویت کے لئے صاف میدان ہے'' فعالیت کی ہے؟
طوری: حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایران کی پوزیشن کچھ پیچیدہ سی تھی۔ میرے خیال میں ایران اب بھی پاکستانیوں کے لئے زیادہ محبوب ہے لیکن ایران کے دشمن پاکستان میں بیکار نہیں بیٹھے۔ وہ لوگوں کو ایران کے خلاف اکساتے رہتے ہیں۔ ایران پاکستان میں بہت کچھ کرسکتا تھا لیکن نہیں کیا۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ 1985ء میں سپاہ صحابہ کی بنیاد کا مقصد ایرانی انقلاب کو روکنا تھا۔ سپاہ صحابہ بنانے میں سعودی عرب اور ضیاء الحق کا ہاتھ تھا۔ پاکستان میں ایرانی انقلاب کے نہایت مثبت اثرات پڑے تھے اور یہی خیال کیا جارہا تھا کہ اب پاکستان میں بھی انقلاب آنے والا ہے۔
لیکن کبھی کبھار ہم نے خود کچھ ایسی غلطیاں کیں جن کی وجہ سے لوگ مخالف ہوتے گئے۔
انقلاب کے فورا بعد دشمن نے پاکستان میں کام کرنا شروع کر دیا۔ محافل اور مجالس کے ذریعے انقلاب اسلامی کے خلاف غلط تبلیغات شروع کر دی گئیں۔ سعودی عرب نے بےتحاشا پیسہ خرچ کیا جس کی وجہ سے وہابی طاقتور ہوتے گئے۔ اس کے باوجود اس ملک کی اکثریت یعنی اہل سنت ایران کو بہت پسند کرتی ہے۔ اس کو مزید بہتر بنانے کےلئے ایران کو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہئے تاکہ دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات میں مزید اضافہ ہو۔
عام طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ایران پاکستان میں فرقہ پرستی پھیلارہا ہے، شیعوں کی مدد کررہا ہے اور دوسرے فرقوں کے خلاف شیعوں کو تیار کر رہا ہے وغیرہ۔ ان باتوں کا سد باب ہونا چاہئے اور پاکستانی قوم کو یقین ہونا چاہئے کہ ایران ایسا کچھ نہیں کررہا۔
مثال کے طورپر 1983ء میں مجھے پاکستان کے کسی شہر میں ایرانی کلچر ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر موجود اکثر کام کرنے والے پاکستانیوں کا تعلق اہل سنت برادری سے تھا لیکن میں نے کلچر ہاؤس کے کتاب خانے میں ایک کتابچہ دیکھا جو اہل سنت کے مقدسات کی توہین پر مبنی تھا۔ چند سال بعد میں نے ایک ویڈیو میں دیکھا کہ سپاہ صحابہ کا سرغنہ اسی کتابچے کو ہاتھ میں لئے ہوئے ایران اور تشیع کے خلاف پاکستانیوں کو اکسا رہا ہے۔
اس قسم کے مسائل پاکستان اور ایران کے اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں جب تک اس قسم کی حرکات کا سدباب نہ کیا جائے تب تک اچھائی کی امیدیں رکھنا بےکار ہے۔
اسی ایران میں، میرے گھر کےاندر ہی ایک ایسی کتاب ہے جس میں خلفاء کے خلاف مختلف باتیں درج ہیں اس قسم کی کتابیں شیعہ سنی اتحاد کو سخت نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایران اسی وقت عالم اسلام کا علمبردار بن سکتا ہے جب وہ دوسروں کے عقائد کا احترام کرے۔ شیعہ سنی اختلافات پر لکھی گئی کتابیں سب سے پہلے دشمن کے ہاتھ چڑھ جاتی ہیں اور دشمن یہ موقع پاتے ہی اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
پاکستانیوں کے اذہان سے یہ بات نکل جانی چاہئے کہ ایران پاکستان کے اندر مذھب تشیع پھیلانا چاہتا ہے۔ ہمیں براہ راست طور پر پاکستان میں شیعیت کی تبلیغ نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں صرف اہل بیت علیہم السلام کی شان اور فضائل بیان کرنے چاہئیں۔