ایران کے ثقافتی انقلاب کے فروغ کا بوجھ ایک 22 سالہ پاکستانی کے کندھوں پر/ «سلحشور» پاکستان میں ایرانی ثقافت کے سپاہی


ایک 22 سالہ پاکستانی نوجوان نے اپنی زندگی ایرانی ثقافتی مصنوعات بشمول فلموں اور ڈراموں کے، پاکستانیوں کے لئے ترجمہ کرنے میں وقف کر رکھی ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی عوام رضاکارانہ طور پر ایرانی انقلاب کو اپنے ملک میں زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہے ہیں۔

22 سالہ نوجوان انورکسی گھر میں نہیں بلکہ پاکستان کے ایک جنوبی شہر کے میں 12 مربع میٹر کے کمرے میں رہتے ہیں۔

انہوں نے اپنے گھر کے چھت پر بنائے گئے نئے کمرے کو کچھ ایسے انداز سے ترتیب دیا ہے کہ ان کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ وہ ہر صبح بیدار ہو کر گھر کی سیڑھی کی مدد سے چھت پر موجود اپنے کمرے میں چلے جاتے ہے۔

اگر آپ انور کے کمرے کا مشاہدہ کریں تو آپ کو ایرانی فلموں اور ڈراموں کی سی ڈیز کے ڈھیر اور ایک پرانے کمپیوٹر کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے گا۔ ان کا کام ایرانی فلموں اور ڈراموں کو تلاش کر کے رات دن ان کا ترجمہ، ڈبنگ، انکی کاپیاں بنانا اور پھیلانا ہے۔ وہ اس کام میں سولہ سولہ گھنٹے تک مشغول رہتے ہیں۔

انورکا خیال ہے کہ ایرانی ڈراموں کے ذریعے سے ترک ڈراموں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ گزشتہ چند سالوں سے کچھ پاکستانی ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نےعجیب طریقے سے ترک ڈراموں کو نشر کرنا شروع کیا ہے۔ ان ڈراموں نے پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد پر غیرمحسوس طور پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔

انور ترک سیریز سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سیریز پاکستان کے معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان کے بجائے پاکستانی عوام کو ایرانی سیریز اور فلمیں دیکھنی چاہئے۔

انہوں نے اپنے کمرے میں امام خمینی، آیت اللہ خامنہ ای کی تصویریں لگا رکھی ہیں حالانکہ وہ اپنے صوبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصلیٹ جنرل اور ثقافتی ایوان کا پتہ بھی نہیں جانتے۔

پاکستان میں ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ انور نے پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تمام ثقافتی سرگرمیوں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پہ لیا ہوا ہے۔

پاکستان میں ایک طرف جہاں ٹی وی، ہوم سنیما پلے، سی ڈیز اور فلموں پر ہندوستانی سنیما کا ناقابل تردید غلبہ موجود ہے وہیں دوسری جانب ایرانی سینما کی ثقافتی مصنوعات بھی حد درجہ مقبول ہیں۔

ڈائرہکٹر فرج اللہ سلحشور کا بنایا ہوا "یوسف پیامبر" تو پاکستان کے ٹی وی نیٹ ورکس سے 20 بار سے زیادہ مرتبہ نشر ہوا ہے اور یہاں تک کہ کچھ نیٹ ورکس نے تو ذیلی ڈبنگ (سب ٹائٹلز) کے بغیر بھی نشر کیا ہے۔

پاکستانی عوام ایرانی فلموں کی صرف تصاویر دیکھ کر بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک یہی دلیل اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ثقافتی مصنوعات کے ایرانی تصورات بین الاقوامی سطح سے کس قدر مختلف ہیں۔ تنقید کا خوفناک ماحول جو یوسف پیغمبر کے سلسلے میں ایرانی ذرائع ابلاغ میں چھا گیا تھا، ایرانی میڈیا کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

فرج اللہ سلحشور کی ایک اور سیریز "اصحاب کہف" بھی پاکستان میں بہت مشہور ہے۔ ایران میں مقیم پاکستانیوں میں سے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ وہ ماہ رمضان المبارک میں پاکستان گئے تھے۔ پاکستانی میڈیا چینلز کے درمیان اصحاب کہف کے نشر کرنے پرعجیب و غریب مقابلہ ان کے لئے بہت دلچسپ تھا۔ نشریاتی ادارے ایک یا دو دن کے اختلاف کے ساتھ مختلف حصوں کے نشر کرنے میں ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے تھے۔ اس طرح سلحشور اسلامی جمہوریہ ایران کی ثقافت کو پاکستان منتقل کرنے والے سب سے اہم عنصر بنے ہوئے ہیں اور وہ بھی کم از کم ثقافتی ویڈیو کی مصنوعات کے میدان میں۔ اگرچہ اس کومنتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستانیوں ہی کی تھی۔

توقع کے مطابق، "مریم مقدس" سیریز پاکستان میں انتہائی مقبول ہے۔ یہ سیریز پاکستان کے پشتو اور اردو چینلوں میں خود پاکستانیوں کے ذریعے سے ڈب ہوئی ہے اور ٹیلی ویژن چینلوں نے کئی بار نشر کی ہے۔

اس طرح گزشتہ سالوں کے دوران ایرانی ٹی وی سیریز مثال کے طور پر "مختار نامہ" پاکستان میں مخصوص عقیدتی اختلافات پیدا ہونے کے باوجود بھی خاصی مقبول رہی۔

اب آپ ایرانی سیریز "یہ آپ کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے" کی مقبولیت بھی جان لیں کہ ایرانی ٹی وی کے ان چند سالوں کے دوران اس معمولی سیریز کی قسطیں کس قدر تیزی سے پاکستان نہ صرف منتقل ہو رہی ہیں بلکہ نہایت مقبول بھی ہو گئی ہیں۔

فلم اور ٹیلی ویژن کی صنعت میں ایران کا ٹرمپ کارڈ پاکستان میں صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ سارے پاکستانی اپنے خاندان کے تمام افراد کے ساتھ بیٹھ کے ان کو دیکھ سکتے ہیں۔

انور کی قسمت بھی پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام عاشقوں کی قسمت کی طرح ہی ہے جو رضا کارانہ طور پر پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی خلا کو پر کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ پاکستان کی 200 ملین آبادی کی جانب سے کسی بھی ایرانی کا خیرمقدم اس کے جہاز کی سیڑھیوں سے اترنے سے شروع ہو کر طیارے کی سیڑھیاں چڑھ کے ایران لوٹنے تک جاری رہتا ہے۔

اب ایرانی ثقافتی مصنوعات کی تو بات ہی اور ہے۔ بھارت اور افغانستان میں اردو زبان کی آبادی کے ساتھ دنیا میں اردوزبان والوں کی آبادی 800 ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایران میں طرزحکومت اور ہمارے اسلامی جمہوریہ ایران میں رہنے سے قطع نظرصرف نفع کی نظر سے ہی دیکھیں تب بھی یہ آبادی ایرانی مصنوعات کے لئے سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

قارئین و صارفین کرام خصوصی دستاویزی رپورٹ "ایران، جان پاکستان" کی پہلی قسط (ہمالیا کے کسی قھوہ خانے میں امام خمینی کی تصویر سے لیکر خرمشہر کی آزادی کےلئے روزوں کی منت تک) اور دوسری قسط (ہم پاکستان میں بھی ایک "خمینی" چاہتے ہیں) کو یہاں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔