پاکستان کے مسلمان ایران کے ساتھ زندہ ہیں/ ہمارا عقیدہ ہے کہ "اگر ایران نہ ہو تو ہم بھی نہ رہیں گے"
تہران پشتو ریڈیو کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ در حقیقت میں نے بہت سے پاکستانیوں کی زبان سے سنا ہے کہ وہ برملا کہتے ہیں کہ اگر ایران نہ ہو تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔
خبر رساں ادارے تسنیم کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں میڈیا اور ثقافت کا سرگرم کارکن اور پشتو ریڈیو کے ڈائریکٹر عاشقحسین طوری کے خبر رساں ادارے تسنیم کے ساتھ انٹرویوکا دو سراحصہ پیش خدمت ہے۔
عاشقحسین طوری کی پاکستان میں ایران کی ثقافتی ترجیحات کے بارے میں بات چیت پہلے حصے میں بیان ہوئی ہے۔
طوری کے بقول، ایران کو پاکستان میں اسلامی وحدت کا علمبردار ہونا چاہئے.
ہم ایران کے ساتھ زندہ ہیں۔ ایران خوش ہے، تو ہم بھی خوش ہیں اور اگر ایران اداس ہے، تو ہم بھی اداس ہیں.
ہمارا مضبوط عقیدہ ہے کہ اگر ایران نہ ہو تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔ یہ جملے ہمارے انٹرویو کے اختتام پر عاشق حسین طوری کے تھے۔ جو ہیں توپاکستانی لیکن ایران کے دلدادہ ہیں۔
عاشق حسین تنہا اپنی زبان سے بات نہیں کر رہا بلکہ وہ پاکستان کےلوگوں کی اکثریت کی زبان بول رہا ہے جن کی ایرانیوں کی دلدادگی ایران کےذرائع ابلاغ اور ثقافتی منیجمنٹ سے پوشیدہ ہے اور بظاہر وہ ظاہر کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
حسین طوری آج کل ایران میں ریڈیو پشتو کے منیجر ہیں۔ البتہ ایران کے پاکستان میں ہاتھ سے جاتے ہوئے ثقافتی مواقع کے نظارہ گر رہنے کے مصائب کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایرانیوں سے بار بار کہا ہے کہ ایک چھوٹی سی نگاہ باہر سے بھی ایران کی طرف کیا کریں اورجان لیں کہ ایران چھوٹا نہیں ہے اور اس کے علاوہ ایران صرف ایران کے لئے بھی نہیں ہے. ایران کی قسمت تمام مسلمان اور مظلوم قوموں کی تقدیر سے جڑی ہوئی ہے.
لیکن عاشق حسین فکرمند ہے. جب حضرت امام خمینی دنیا سے چلے گئے تو انہوں نے ہمارے لئے لکھا کہ وہ پر سکون اورمطمئن دل کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ ان کے مطمئن ہونے نے ہمارے دل و دماغ کو سکون بخشا ہے۔۔۔۔ ایران کے بارے میں ہمارا دل مطمئن ہے لیکن پاکستان کا خمینی کہاں ہے؟
عاشقحسین کےساتھ انٹرویو کا دوسرا حصہ:
تسنیم: جناب طوری صاحب، ان تمام تفاصیل کے ساتھ پاکستانیوں کی ایرانیوں کے ساتھ تمام قربتوں کی بناء پر فرض کریں کہ صرف ایک ترجیح وہ بھی خاص طور پر ثقافتی ترجیح جو آپ پاکستان میں ایران کے بین الاقوامی ثقافتی مینیجمنٹ کے لئے دینا چاہیں، پاکستان میں ایرانی ثقافتی کام کی فوری ترجیح کس نقطے پر مرکوز کرنی چاہئے؟
طوری: مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پاکستان میں ایسا نہیں لگنا چاہئے کہ ایران شیعہ، سنی مسائل پیدا کر رہا ہے۔
خاص طور پر ایرانی خبر رساں ادارے جو بین الاقوامی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان موضوعات میں پڑ جائیں کہ شیعوں کے قتل عام کو سنیوں کے قتل عام پر اہمیت کا احساس نہ ہونے دیں۔
ہمیں یقین ہے کہ ان ہلاکتوں کا شیعوں اور سنیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہید عارف حسین الحسینی کے مدرسے کے واقعے سے چند روز پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک رکن اسمبلی کو قتل کرنے کے لئے پشاور کے نزدیک نماز جنازہ کی تقریب میں طالبان نے اہل سنت پر ایک خودکش حملہ کیا اور اہل سنت کے 30 افراد مارے گئے۔
پشتو ریڈیو میں اسی طرح کام کرتا ہوں۔ سب کے فائدے کی باتیں کرتا ہوں اس میں سب کا فائدہ ہے۔ خاص طور پر یہ بتایا جائے کہ چار پانچ سال پہلے صرف شیعہ وہابیوں کے نشانے پر تھے لیکن 2007ء سے اب تک اہل سنت بھی طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ چند سال پہلے رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر اہل سنت کے اجتماع پر ایک دھماکہ کیا گیا جس میں 40 افراد شہید کر دئے گئے۔ شیعوں کو اس میں قصوروار ٹہرانا چاہتے تھے۔ لیکن خود اہل سنت نے اعلان کیا کہ ہم اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں۔ یہاں تک کہ رویت ہلال کمیٹی کے چئیرمین مفتی منیب الرحمان بھی پاکستان میں وہابیت کے اثر و رسوخ کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اور خود میں نےبھی چند سال پہلے مفتی منیب الرحمن کے خیالات کی ایک مکمل رپورٹ لکھ کر امام خامنی ای کے دفتر کو ارسال کی تھی۔
اس صورتحال میں میرا خیال ہے کہ ایرانیوں کی پاکستان میں ثقافتی ترجیح یہیں ہونی چاہئے۔
لیکن اس معاملے میں ہمیں ایرانیوں کے ساتھ کچھ مسائل کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر، یہاں تک کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں منعقد ہونے والے تقاریب میں بھی زیادہ تر پاکستان سے شرکت کرنے والے اور مدعو کئے جانے والے وہابیت کے پیروکار افراد ہوتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت کے درمیان ایسے علماء موجود ہیں جو واقعی طور پر ایران اور انقلاب سے محبت کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے بہت کم ایران کی جانب سے دعوت کئے جاتے ہیں اور ان کو کوئی خاص اہمیت بھی نہیں دی جاتی ہے۔
وہابیت کے نقش قدم پر چلنے والے علماء کو دعوت دینا بھی ان کے علم اور آگاہی کے لئے اچھا ہے لیکن دوسرے گروہوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے.
ایران میں موجودگی کے بعد پاکستان میں ایسے لوگوں کی موجودگی نہایت مؤثر ہے لیکن اگر ہمارا حقیقی مقصد پاکستان میں مسلمانوں کا قتل عام روکنا ہے تو یہ موضوع ہرگز یکطرفہ نہیں ہونا چاہئے اور اہل سنت کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
شهید حسینی نے شیعہ سنی عملی اتحاد کے لئے اپنے بچوں کی قرآنی تعلیم کے سلسلے میں ایک سنی عالم سے درخواست کی اور ان کی مدد لی تھی جس کے نتیجے میں سنی علمائے کرام بھی شہید عارف حسینی کے ساتھ نماز با جماعت پڑھتے تھے۔ اس طرح شیعہ اور سنی اتحاد کا زبردست میدان تیار ہوا تھا تاہم بدقسمتی سے ان کا کام نامکمل رہ گیا۔
تسنیم: پاکستان میں ایرانی ذرائع ابلاغ کی کیا صورتحال ہے؟ پاکستان میں فلمیں، ریڈیو اور ایرانی میڈیا کے لئے گاہک ہیں؟
طوری: ایران میں ذرائع ابلاغ کی دو اقسام ہیں؛ قومی اور بین الاقوامی چینلز۔ پاکستان میں قدرتی طور پر، اندرونی نیٹ ورک نہیں دیکھا جاسکتا ماسوائے 6 نیوز چینلز کے اور وہ بھی فارسی زبان میں ہیں جسکی وجہ سے ان کا کوئی ناظر موجود نہیں ہے۔
تاہم بین الاقوامی چینلز مثلا پریس ٹی وی اور سحرٹی وی کے ناظرین پاکستان میں زیادہ ہیں۔ اسی طرح بین الاقوامی ریڈیو جیسے پشتو کے اپنے طور پر مخصوص سامعین ہیں۔
جہان تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے وہ تقریبا سارے کا سارا فارسی زبان میں ہے۔
لہٰذا میرے خیال میں پہلی چیز ایرانی میڈیا میں علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں کی تعداد بڑھنی چاہئے۔
دوسرا اہم کام یہ کہ ایرانی میڈیا میں وہابیت کو اہل سنت سے جدا کر دینا چاہئے۔
سعودی عرب پوری شدت کے ساتھ وہابی مدرسوں کو فنڈنگ کرتا ہے اور مسلمانوں کے قتل عام کی تربیت دلاتا ہے اور پاکستان کے زیادہ تر مدارس وہابیوں کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں۔
تسنیم: پاکستان میں امریکی اور برطانوی میڈیا کی سرگرمیاں بتائیں اور بی بی سی اردو تو بظاہر مقبول بھی ہے؟
طوری: بہت زیادہ! بی بی سی شیعہ اور سنی تنازعات کو بڑھاوا دینے کا سبب ہے۔ مثال کے طور پر لشکر جھنگوی خودکش کارروائیاں کرتی ہے۔ بی بی سی فورا اعلان کرتی ہے کہ اہل سنت نے شیعوں کو مارا ہے جبکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ لشکر جھنگوی اہل سنت میں سے نہیں ہے اور بی بی سی اس کو مسلسل دھراتی رہتی ہے۔ بدقسمتی سے اس برطانوی نیٹ ورک کے سامعین بھی بہت زیادہ ہیں
اور اس طرح امریکی اور یورپی میڈیا پاکستانیوں پر حد درجے کا کام کر رہی ہیں جس کے باعث عوام کی رائے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔
تسنیم: آپ نے شہید عارف حسینی کا مختصر طور پر ذکر کیا۔ چاہتاہوں گفتگو کے آخری حصے میں ان کے بارے میں بات ہوجا ئے؟
طوری: عارف حسینی حقیقت میں تقویٰ کے ایک خاص نمونہ تھے۔ میں نے ان کے ساتھ عرصہ گزارا ہے۔ علمی لحاظ سے شاید پاکستان کے بہت سےعلماء کے برابر نہیں تھے لیکن ایمانداری اور سچائی میں شاید ہی ان کی کوئی برابری کرتا۔ انہوں نے نجف اور قم سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اپنے آبائی گاؤں پاراچنار گئے اور مدرسہ جعفریہ میں پڑھانے میں مشغول رہے۔
علامہ مفتی جعفر حسین صاحب کی رحلت کے بعد ان کو شیعہ برادری کے رہنما کے طور پر منتخب کیا گیا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی خصوصیات میں سے ایک مالی امور میں ان کا محتاط ہونا تھا۔ اپنی پڑھائی کے دوران اپنے پیسوں سے بچائی ہوئی رقم سے 600-500 میٹر زمین پشاور میں خرید کر مدرسہ بنوایا جو اب مدرسہ شہید عارف حسین الحسینی کے نام سے مشہور ہے۔
کچھ عرصہ پہلے اسی مدرسے میں مسجد کے اندرخود کش دھماکہ ہوا جہاں پر وہ خود بھی شہید ہوئے تھے۔ بالکل اسی جگہ پر خود کش حملہ ہوا جہاں خود شہید حسینی کے پوتے سید مھدی حسین الحسینی جس کی عمر 11سال کی تھی، شہید ہوا اور ان کو اپنے دادا کے پہلو میں دفنایا گیا۔
شہید حسینی کا راستہ حضرت امام خمینی اور امام خامنہ ای کا راستہ تھا اور یہی راستہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ ہے اور امام حسین علیہ السلام کا راستہ سب مسلمانوں کے لئے راہ روشن ہے۔ اس لئے پاکستان کے مسلمان اپنے آپ کو ایران سے جدا نہیں سمجھتے اور ہم پاکستان کے مسلمان، ایران کے اسلامی انقلاب کے مقروض ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستانی مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ، ایران کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر ایران خوش ہے، تووہ بھی خوش ہیں اور اگر ایران اداس ہے، تو وہ بھی اداس ہیں۔ میں نے بہت سوں کی زبان سے سنا ہے کہ وہ برملا کہتے ہیں کہ اگر ایران نہ ہو تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔
«فرهنگ، سیاست، اسلامی جمہوریہ»/ خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ1 » ہمالیا کے کسی قھوہ خانے میں امام خمینی کی تصویر سے لیکر خرمشہر کی آزادی کےلئے روزوں کی منت تک.
خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ2 » ہم پاکستان میں بھی ایک "خمینی" چاہتے ہیں.
خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ3 » ایران کے ثقافتی انقلاب کے فروغ کا بوجھ ایک 22 سالہ پاکستانی کے کندھوں پر/ «سلحشور» پاکستان میں ایرانی ثقافت کے سپاہی.