مسلمان اپنی مذہبی ذمہ داریاں مل کر نبھائیں


پاکستان کے وزیر مملکت برائے مذہبی امور نے کہا ہے کہ ہم نے کچھ چیزیں تقسیم کر لی ہیں، کوئی اللہ کی پارٹی بن گیا ہے تو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی، کسی نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جبکہ کسی نے اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی ذمہ داری لے لی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ذمہ داریاں ہم مل کر نبھائیں اور انھیں قبول کریں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر صاحبزادہ امین الحسنات نے اتحاد بین المسلمین پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لینی چاہئے جو کہ تمام مکاتب فکر کے فائدے میں ہے۔

وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر صاحبزادہ امین الحسنات سے مکالمے کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

تسنیم نیوز: ملک کے مختلف شہروں میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ (ضیاء القرآن کیمپس) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس مقصد کے پیچھے کیا آپ کی ذاتی کوششیں کارفرما ہیں یا ان دینی اِداروں کی بنیاد حضور ضیاء الامت پیر کرم شاہ صاحب الازہریؒ کے عہدِحیات ہی میں رکھ دی گئی تھی؟

صاحبزادہ امین الحسنات: یہ سارے کا سارا کرم حضور ضیاء الامت ہی کا ہے۔ آپ ہی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا تھا۔ آپ نے انہی دینی اداروں میں وقت گزارا ، تعلیم حاصل کی۔ ان کی خوبیاں بھی آپ جانتے تھے، جو کوتاہیاں
کمیاں تھیں وہ بھی آپ ہی نے دور کئے۔ تو یہ سارے کی ساری محنت کاوش انہی کی ہے اور ہم اسے آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔

تسنیم نیوز: کن کن شہروں میں یہ اِدارے قائم کیے گئے ہیں اور اب تک ان کی ٹوٹل تعداد کیا ہے؟

صاحبزادہ امین الحسنات: یہ اِدارے تقریباً دو سو کے قریب ایسی جگہیں ہیں جہاں ان اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ان میں گجرات، منڈی بہاؤالدین، راولپنڈی، اسلام آباد، سرگودھا، سیالکوٹ، لاہور ہے۔ اس طرح بہت سے شہروں میں یہ ادارے قائم ہیں۔ ان میں بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ پرائمری پاس بچوں کے لیے شعبۂ حفظ کا نظام ہے، ان بچوں کو مڈل تک تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میٹرک کے بعد جو بچے داخل ہوتے ہیں، سات آٹھ سال تک وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، انھیں ایم اے تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی طرح بچیاں بھی میٹرک کے بعد پانچ چھے سال تک ایم اے کے لیول پر چلی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے تفصیلات آپ چاہیں گے تو پھر کسی موقع پر دے دی جائیں گی۔

تسنیم نیوز: ایک عام خیال یہ ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندے تعلیمی اداروں میں اپنے اپنے مخصوص مسلک کے دائرے میں رہتے ہوئے طلباء و طالبات کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے جس سے فرقہ واریت کا رُجحان فروغ پذیر ہوتا ہے۔ اس تأثر میں کس حد تک صداقت ہے؟

صاحبزادہ امین الحسنات: ہمارا مسلک اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے۔ جس کسی میں بھی یہ خصوصیت ہو، اس کے لیے ہمارے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔
تسنیم نیوز: معلّمین اور اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے کون سا معیار (Criteria) پیشِ نظر رکھا جاتا ہے؟
صاحبزادہ امین الحسنات: ہمارے زیادہ تر معلّمین وہ ہیں جنھوں نے ہمارے پاس پڑھا ہے اور پھر وہ آگے پڑھا رہے ہیں، کیونکہ ہم خود بھی جو کچھ پڑھاتے ہیں اس کے صلے میں کوئی فیسیں نہیں لیتے۔ اس حیثیت سے جو بچے ہمارے پاس پڑھتے ہیں تو پھر ہم ان سے کچھ کام بھی لیتے ہیں کہ جس قوم نے، جس امت نے آپ کے لیے یہ سہولتیں مہیا کی ہیں، اب کچھ وقت آپ بھی ان بچوں کو دیں۔ تو زیادہ تر ہمارے اپنے اداروں سے فارغ التحصیل شاگرد ہی اگلے مراحل میں داخل ہونے والے بچوں کے استاد ہوتے ہیں۔ اس میں ہمیں آسانی بھی رہتی ہے، اس لیے کہ پڑھانے والوں نے خود اِس سسٹم کو سمجھا
ہوتا ہے۔

تسنیم نیوز: آپ کی خاندانی شناخت سراسردِین کے حوالے سے تھی، پھر آپ نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کس بنا پر کِیا؟

صاحبزادہ امین الحسنات: اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہماری شناخت دِینی ہے، لیکن ہم دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے زیادہ دُور نہیں سمجھتے۔ ہمارے علاقے میں میں نے دِین کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے اور پیشِ نظر یہ بھی ہے کہ میرے شہر کے لوگوں پہ اگر کوئی شخص زیادتی کرے، وہ آئے ان کے حقوق چھین لے، آئے ان کی زمینوں پہ قبضہ کر لے، آئے اور جھوٹے مقدموں میں ان کو زندان کی نذر کر دے تو میرے لیے ایک مسلمان اور امت کے خیرخواہ کی حیثیت میں برداشت نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے یا تو آپ کو سیاسی لوگوں کی سرپرستی حاصل کرنا پڑتی ہے یا خود سیاست میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ ہمارا سیاست میں آنے کا فقط یہی مقصد ہے، اس کے علاوہ سیاست سے ہمارا کوئی مالی فائدے کا سلسلہ نہیں ہے۔
 تسنیم نیوز: سیاست میں ورود کے لیے مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کن ترجیحات کی بنیاد پر کیا؟ کیا براہِ راست نواز لیگ کی طرف سے آفر آئی یا یہ آپ کا ذاتی فیصلہ تھا؟

صاحبزادہ امین الحسنات: 1985ء سے جب میں نے تعلیم مکمل کی اور واپس آیا تو اِس جماعت (مسلم لیگ) کے ساتھ ایک سلسلہ قائم ہُوا۔ تو ایسا کبھی نہیں ہُوا کہ ہم شام کو کسی کے ساتھ، صبح کسی کے ساتھ، رات کا کھانا کسی کے ساتھ اور صبح کا ناشتہ کسی کے اسٹیج پہ۔ ہماری ترجیحات میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ ہماری ترجیحات میں دو باتیں ہیں۔ وہ انسان، وہ جماعت، وہ تنظیم جو مُلک کی خیرخواہ ہو، جو دِین کی خیرخواہ ہو،اس سے ہماری دوستی نبھتی ہے۔ جس میں یہ دونوں خوبیاں نہ ہوں، اس کے ساتھ ہمارا چلنا مشکل ہوتا ہے۔ مسلم لیگ کی لیڈرشپ میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ انھیں یہ اِدراک بھی ہے کہ وہ مُلک کے خیرخواہ بھی ہیں اور اپنے دِین کے لیے بھی احترام اور عزت رکھتے ہیں۔ آج بھی ہماری کابینہ میں گیارہ لوگ ایسے ہیں، جن کی شناخت دین داری کی ہے، وہ متشرع ہیں۔ اسی چیز نے ہمیں مسلم لیگ کی طرف لانے میں مائل کیا، اور ہم مسلم لیگ کے ساتھی ہیں۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان بننے سے پہلے ہمارے بزرگوں کی جماعت مسلم لیگ ہی تھی جس نے پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس لیے مسلم لیگ سے ہمیں کوئی دُوری نہیں ہے، ہمارے بزرگوں نے آغاز اسی سے کیا، ہم اسے اپنی جماعت ہی سمجھتے ہیں۔

تسنیم نیوز: گزشتہ ادوار میں وزارت مذہبی امور کے کام کے سلسلے میں مختلف اسکینڈلز بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں، جن کا نیشنل میڈیا میں بہت چرچا ہوا۔ اس بارے میں آپ کیا کنا چاہیں گے؟

صاحبزادہ امین الحسنات: میری منسٹری کی بات آپ نے جس حوالے سے کی ہے تو ہم پچھلے سکینڈلوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۔ کسی کی ذِمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ ہم جتنے عرصے سے ہیں، اس میں ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے عوام کے سامنے ہے، ہم اس ضمن میں روزافزوں بہتری کے بھی کوشاں ہیں۔
تسنیم نیوز: اس مرتبہ حج آپریشن مثالی رہا، گزشتہ سال کیا معاملات در پیش تھے کہ حاجیوں کو زحمت کا سامنا کرنا پڑا؟

صاحبزادہ امین الحسنات: پچھلی بار سانحہ مِنا ہو گیا، اِس سال ایسا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ وہ بہت بڑا واقعہ تھا، سات آٹھ ہزار بندے شہید ہو گئے تھے۔ اِس بارے میں آپ مزید کوئی سوال نہ کریں۔

تسنیم نیوز: دنیا بھر میں لگ بھگ چھپّن آزاد اِسلامی ممالک کے حوالے امت مسلمہ کی بات بہت کی جاتی ہے لیکن کسی بھی اسلامی ملک پر اسلام دشمن طاقت حملہ آور ہو کر اسے تہس نہس کر دیتی ہے تو بقیہ اِسلامی ممالک سوائے تماشا دیکھنے اور کفِ افسوس ملنے کے کچھ نہیں کر پاتے بلکہ ان میں سے کچھ تو خود ہی ان اِسلام دُشمنوں کو اسٹریٹیجک سپورٹ مہیا کر کے اِسلامی ممالک کا کباڑا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، تو ایسی صورتِ حال میں ’’اُمّتِ مسلمہ‘‘ یا ’’مِلّتِ اِسلامیہ‘‘ کی رَٹ لگائے رکھنا کہاں تک مناسب ہے؟

صاحبزادہ امین الحسنات: ہمارا ایک کاز پر اکٹھے نہ ہونا بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی معاملے پر ہمارا (امتِ مُسلمہ کے تناظر میں) اتفاق اور اتحاد نہیں ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ہر جگہ ذلیل و رُسوا ہو رہے ہیں، ان کو پوچھنے والا، ان کے شریکِ غم ہونے والا کوئی نہیں ہے۔ رات کو ایک ٹی وی پروگرام میں سن رہا تھا کہ پچھلی صدی میں پچاس کروڑ مسلمان اس کرۂ ارض پر بے وجہ، بے سبب مارے گئے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر ہمارے مابین اتفاق ہوتا، ہمارے لوگ اسے دیکھتے، سمجھتے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ امت مسلمہ کے حالات میں بہتری نہ آتی۔ یہ نپے تُلے اصول ہیں۔ اب دیکھیں جب انسان زوال پذیر ہوتا ہے تو اسے پھر سے سنبھلنے کا موقع کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ چند ایسی خصوصیات بہرحال ہیں کہ جنھیں قومیں اپنے اندر پیدا کر لیں تو انھیں پھر سے عروج حاصل کرنے میں کامیابی مِل جاتی ہے۔ قومیں مرتی نہیں ہیں، ان
کے اوپر امتحان کا وقت ضرور آتا ہے اور وہ ختم بھی ہو جاتا ہے، لہٰذا جب یہ آزمائش کا وقت ختم ہوگا تو ہم پرامید ہیں کہ بحیثیتِ مِلّت ہم پر آنے والے زوال کا تدارک بھی ضرور ہوگا۔

تسنیم نیوز: امت مسلمہ میں وحدت کا فقدان نظر آتاہے، شام، عراق، لیبیا، افغانستان، یمن، برما جہاں دیکھیں مسلمان غیر مسلموں کے ہاتھوں ظلم و تعدی کا شکار ہیں اور انہیں بری طرح مارا جارہا ہے، امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

صاحبزادہ امین الحسنات: اُمّتِ مسلمہ کی وحدت کی بات واقعی قابلِ فکر ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ دس اور ’’او آئی سی‘‘ بنا لیں، اگرمعاملات میں قیادت اور فکرِ سلیم نہیں ہوگی تو اس کا یہی نتیجہ نکلتا رہے گا جو اِس وقت آپ اور ہم سب کے سامنے ہے۔ ہم دُعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر کی خرابیوں کو دُور کرے اور جو خوبیاں قوم کے لیے، اُمّت کی کامرانی کے لیے ضروری ہیں، اُن سے ہمیں سرفراز کرے۔ ہم اِسلام کے گلوریس پیریڈ کی زیادہ بات کرتے ہیں، ہمارے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے کا جو دور گزارا ہے، وہ بھی ایک اصول اور ضابطے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گزارا تھا، اُس دور کی چند ایک چیزوں کو ہم پھر اپنا لیں، صرف گلوری ہی نہ دیکھیں، ہم دیکھیں کہ شعبِ ابی طالب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کردار کیا رہا، بحیثیتِ منصف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کردار کیا تھا، جب کسی مرحلے پر حکمت و دانائی کی ضرورت پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے کیسے نبھایا، اپنے غلاموں کو کس طرح مستقبل کے لیے تیار کیا۔ یہ ساری چیزیں پیشِ نظر رکھی جائیں تو اس سے وحدت کی صورت پیدا ہو سکتی ہے، ورنہ تو تقسیم کے لیے بہت سے ذرائع موجود ہیں۔ زبان بھی تقسیم کرتی ہے، جغرافیہ بھی تقسیم کرتا ہے، تاریخ بھی تقسیم کرتی ہے، اسی طرح اور چیزیں بھی ہیں۔

تسنیم نیوز: محرم الحرام کا مہینہ کیسے منایا جائے کہ مسلمان باہم شیرو شکر ہو جائیں؟

صاحبزادہ امین الحسنات: محرم الحرام کے حوالے سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہر آدمی، جو کسی بھی نظریے کا پرچارک ہوتا ہے، اس کے اوپر جب آپ مداخلت کرتے ہیں تو مسئلہ بگڑ جاتا ہے۔ ہمارے اہلِ تشیّع کا جو طریقِ کار ہے، جس طرح وہ چل رہے ہیں، اس سلسلے میں اگر ہمیں کوئی سمجھانے کی بات ہے تو ضرور سمجھائیں، لیکن اس سلسلے میں مداخلت نہ کی جائے۔ میری گزارش یہ بھی ہے کہ اہل تشیع کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ امامِ عالی مقام کو اِس طرح پیش کریں کہ لوگ اس طرف دیکھیں اور اس پیغام کو آگے بڑھائیں۔ ہم نے کچھ چیزیں تقسیم کر لی ہیں۔ کوئی اللہ کی پارٹی بن گیا ہے، کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پارٹی بن گیا ہے، کوئی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کا چیمپیئن بن گیا ہے، کسی نے اہلِ بیتِ اطہار کی ذمہ داری لے لی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ذمہ داریاں ہم مل کر نبھائیں اور انھیں قبول کریں تو یہ زیادہ بہتر صورت ہے۔