حکومت مخالف تحریکیں انقلاب ایران کی مانند آہستہ آہستہ زور پکڑتی ہیں
پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹری جنرل نے حکومت مخالف مظاہروں کو انقلاب ایران سے مشابہت دی اور کہا ہے کہ اگر آپ انقلاب ایران کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تحریکیں آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہیں اور پھر ایک رخ اختیار کرتی ہیں۔
خبررساں ادارے تسنیم کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے حکومت مخالف مظاہروں کو انقلاب اسلامی جمہوری ایران سے مشابہت دی اور کہا کہ ایسی تحریکیں آہستہ آہستہ زور پکڑتی ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹری جنرل سے ترتیب کیا گیا مکالمہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔
تسنیم نیوز:تازہ ترین صورتحال جس میں وزیر اطلاعات پرویز رشید مستعفی ہو گئے ہیں، ملک میں احتجاج کی فضا بن رہی ہے، پاکستان عوامی تحریک اس موقع پر کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟
خرم نواز گنڈا پور: دیکھیں جی دو چیزیں ہیں، ایک یہ ہے کہ اگر آپ نواز شریف کا حکومت کرنے کا اسٹائل سمجھتے ہیں، تو آپ جانتےہوں گے کہ انہوں نے ہمیشہ سے اسی طرح حکومت کی ہے۔ ماڈل ٹاون کا سانحہ ہوا، شور برپا ہوا، تو نواز شریف نے رانا ثناء اللہ کی چھٹی کرا دی، جب وقت گزر گیا تو اسے دوبارہ اسی عہدے پر بحال کر دیا گیا، مشاہد اللہ صاحب کا بھی یہی کچھ ہوا، تو یہ پرویز رشید بھی ایسے ہی ہے جیسے کسی علاقے میں کسی چوہدری کے مصلی اور نوکر ہوتے ہیں، ہمیشہ یہی ہوتا ہے خان جرم کرتا ہے اور کوئی ایک نوکر اس جرم کی سزا میں اندر ہو جاتا ہے اور خان اس کی فیملی کو پیچھے سے دیکھ بھال کرتا ہے، خان اس کے معاملات کو دیکھتا رہتا ہے اور نوکر اس کے بدلے قربانی کا بکرا بن جاتا ہے۔ پرویز رشید کو اپنی زبان پہ کنٹرول نہیں ہے، ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ پرویز رشید نے قومی سلامتی سے متعلق خبر لیک کرنے کا فیصلہ خود کیا، اس میں اتنی جرات اور ہمت نہیں ہے۔
اب بنیادی طور پر یہ سارے شہزادی مریم کو بچا رہے ہیں کیونکہ آٹھ وائبر مسیجز شہزادی مریم اور المیڈا صاحب کے درمیان ہوئے ہیں۔ المیڈا صاحب کو تو ڈان نیوز نے ملک سے باہر بھجوا دیا ہے اور جب تک چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف صاحب بیٹھے ہیں، سرل المیڈا واپس نہیں آئے گا اور اگر ان کو غلطی سے ایکسٹینشن مل گئی تو المیڈا امریکہ میں ہی سیاسی پناہ لے لےگا اور ایسے لوگوں کے سیاسی پناہ کے کیس بھی جلدی پراسیس ہو جاتے ہیں۔
قومی سلامتی کی اعلیٰ ترین میٹنگ کی خبر لیک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی ہماری گفتگو بھی محفوظ نہیں رہ سکتی تو اس جرم میں ہمیں دس لوگوں کو بھی پھانسی لگانی پڑے اس معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہیے۔ اور جو بھی ذمہ دار ہے، اس پر آرٹیکل سکس لگنا چاہیے۔
یہ جرم آرٹیکل سکس کے زمرے میں آتا ہے۔ ریاست کے راز فشاں کرنا، کسی کو دینا، یہ آرٹیکل سکس کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور غداری کی سزا موت ہے۔ صرف وزارت سے ہٹا دینے کا کیا مطلب بنتا ہے۔
یہاں ایک ذکر کرتا چلوں کہ پرویز رشید کو قومی سلامتی میٹنگ کی خبر لیک ہونے کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ ابھی تو انکوائری ہی نہیں ہوئی، تو کس نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ یہ مجرم ہے، یہی چیز جب ہم شہباز شریف صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں وہ قاتل ہیں، ان کے ایماء پر سب کچھ ہوا، ان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے، ان کو ہٹا دینا چاہیے۔ جب تک ایک آزادانہ انکوائری نہیں ہو جاتی، سچ سامنے نہیں آئے گا اور یہ فارمولا نواز لیگ کو سمجھ نہیں آتا، تو یہ حکومت صرف اور صرف آل شریف کے اقتدار کو بچانے کے لئے قائم ہے۔
یہ حکومت پاکستان نہیں ہے، یہ چند خاندانوں کی ذاتی ریاست بنی ہوئی ہے۔ وہ شہزادی مریم، شہزادہ حسن، شہزادہ حسین ، داماد اعلیٰ کیپٹن صفدر صاحب اور یہ بات کہ جو پہلا آدمی تحریک انصاف کا پکڑا گیا ہے، وہ آدمی ہے جس نے داماد اعلیٰ کے خلاف الیکشن پٹیشن فائل کیا ہوا ہے۔ اس کو کوہسار تھانے میں بٹھا کر کہا گیا کہ آپ کیپٹن صفدر کے خلاف پٹیشن واپس لے لیں تو آپ کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس سے بڑی کھلی بلیک میلنگ کیا ہو سکتی ہے؟
ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور انشاء اللہ دو نومبر کے احتجاج میں شامل بھی ہوں گے۔ میں خود پنڈی میں ہونگا اور انشاء اللہ تعالیٰ اس حکومت کے خلاف یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ لیکن ایک بات میں پھر بھی یاد دلاتا جاؤں کہ آخر کار سزا میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو ماڈل ٹاؤن کے اندر ہی ہوگی۔
تسنیم نیوز: ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی آمد کسی بھی احتجاجی تحریک میں نئی روح پھونک دیتی ہے، جیساکہ ہم نے راولپنڈی میں تحریک قصاص ریلی کے دوران دیکھا تو کیا دو نومبر کو بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کی توقع کی جاسکتی ہے؟
خرم نواز گنڈا پور: نہیں! دو نومبر تک تو شاید ان کی شرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی، جن میٹنگز کے لئے وہ مراکش گئے ہوئے ہیں، وہ چار پانچ ماہ پہلے طے ہوئیں تھیں۔ پرسوں وہ مراکش کے کنگ حسن کو ملیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ ملاقاتیں بڑی تیار ی اور محنت کے بعد طے ہوتی ہیں۔ شاید وہ دو نومبر تک نہ آسکیں لیکن اگر آپ 1977 کو یاد کریں اور اگر آپ انقلاب ایران کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تحریکیں آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہیں اور پھر ایک رخ اختیار کرتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ دو نومبر کو ہی کوئی بڑا فیصلہ ہو جائے گا لیکن ابتدا تو ہو چکی ہے۔ آج آپ اسلام آباد جائیں تو ساری سڑکیں بند ہیں۔ کے پی سے آپ اسلام آباد سفر نہیں کر سکتے تو حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز ہو چکا ہے اور حکومت کی پہلی وکٹ بھی گر چکی ہے اور انشاء اللہ حکومت کا خاتمہ بھی جلد ہو جائے گا۔
تسنیم نیوز: حکومت نے اپنے ایک وزیر کو ہٹا کر خود ہی اپنا جرم مان لیا ہے، کیا اب ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنے کی امید کی جاسکتی ہے؟
خرم نواز گنڈا پور: جب حکومت کا ایک وزیر مجرم ہو تو جمہوریت کے اندر اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لا محالہ وزیراعظم اس میں ملوث ہیں اور وزیراعظم کو بھی مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اگر آپ جمہوریت کے تسلسل کی بات کرتے ہیں تو تین سو بیتالیس کی پارلیمان میں کوئی اہل آدمی نہیں ہے جس کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔ مسلم لیگ(ن) والے اپنا وزیراعظم چن لیں، پی پی کے وزیراعظم بھی تو سپریم کورٹ نے ہٹایا تھا تو کیا ہوا تھا۔ ان کی حکومت چلتی رہی تھی لیکن یہاں چونکہ یہ شریف خاندان کی بادشاہت سمجھتے ہیں تو کوئی یہ بات کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔