پاک ایران کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات اور دفاعی معاہدہ ناگزیر/ بھارتی، سعودی، اماراتی اور ترک حکمران سب اسرائیل کے دوست ہیں


پاکستان کے نامور سفارتکار ظفر ہلالی نے اس بیان کے ساتھ کہ تہران اور اسلام آباد کے مابین اسٹرٹیجک تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ ناگزیر ہے، کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اسرائیل کا دوست ہے؟ پاکستان کی دوستیوں کی بنیاد اصول نہیں بلکہ پیسہ ہے یعنی خلیجی عرب ممالک اپنے پیسے کی بنیاد پر پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھتے ہیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، ظفر ہلالی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ پاکستان کے نامور سفارتکار کی حیثیت سے مختلف ممالک میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وہ ان کے قریبی معتمد تھے۔

تسنیم خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے کئی تجاویز بھی پیش کیں۔ ان کی رائے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مادر وطن کی خارجہ پالیسی سے مطمئن نہیں۔ خلیجی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی موجودہ نوعیت پر بھی انہیں اعتراض ہے کیونکہ اس کی بنیاد اصول نہیں بلکہ پیسہ ہے یعنی خلیجی عرب ممالک اپنے پیسے کی بنیاد پر پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھتے ہیں۔

تسنیم خبر رساں ادارے سے ان کی بات چیت من و عن پیش خدمت ہے۔

تسنیم: ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں آپ کا نکتہ نظر کیا ہے؟

ظفر ہلالی: پاکستان جب قائم ہوا تو اس وقت پاکستان کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ ایران ہمارا پڑوسی ملک تھا اور ہم سعودی عرب سے بھی زیادہ دور نہیں تھے۔ ان دونوں ملکوں سے ہماری دوستی بڑھتی چلی گئی۔ ایران کے ساتھ ہم سینٹو CENTO میں تھے۔ دونوں میں وفود کے دوروں کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔ دونوں کے مابین معاہدے تھے۔ ان تعلقات میں اس وقت دھچکا لگا جب ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی یعنی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ اس سے ایران کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس کے بعد ہمارے تعلقات تو رہے لیکن کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کے پاس تیل نہیں تھا، ہمسایہ ملک ایران کے پاس تیل ہی تیل تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم تیل و گیس کی پائپ لائن کے منصوبے بناتے کیونکہ ایران کے پاس یہ دونوں چیزیں اضافی تھیں۔ 1971ء کی جنگ میں بھی ایران نے پاکستان کی مدد کی۔ ہمارے طیارے وہاں پارک کئے جاتے تھے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان ٹوٹ گیا۔

تسنیم:انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں؟

ظفر ہلالی:انقلاب اسلامی ایران کی بنیاد شیعہ اسلام پر تھی اور اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت تھی۔ ضیاء الحق منافق تھے اور سعودی عرب کے چمچے بھی تھے۔ چونکہ سعودی بادشاہت کے شیعہ دنیا سے تعلقات اچھے نہیں تھے اس لئے پاکستان ایران تعلقات میں بھی بہتری نہیں آسکی۔ ایک طرف سعودی تھے اور دوسری طرف انقلابی ایرانی۔ ہم دونوں طرف سے پھنس گئے۔ ایک طرف سے پیسے آرہے تھے اور دوسری طرف سے شدید تنقید۔ اب بھی ہم چمچے ہیں لیکن کسی حد تک کم۔ اب ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں رہے لیکن ایران کے ساتھ تعلقات پھر بھی ویسے بہتر نہیں ہوئے جیسے ہونے چاہئیں تھے۔

تسنیم:ان منجمد تعلقات کے اسباب کیا ہیں؟

ظفر ہلالی: جہاں بھی دنیا میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ بڑھا ہے وہاں وہاں ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ سعودی عرب سے تیل اور ہتھیار ملتے رہے ہیں۔ ایٹمی پروگرام میں بھی انہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ یعنی ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی اور وہ (سعودی) بڑے سخی تھے۔ جس سے پیسے لئے جاتے ہیں، اسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔

تسنیم:تو پھر پاکستان ایران تعلقات کیسے بہتربنائے جاسکتے ہیں؟

ظفر ہلالی: اصل میں سفارتکاری کا چیلنج یہی ہے کہ دو مختلف قسم کے ملکوں سے بیک وقت کس طرح اچھے تعلقات رکھے جائیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک کو گود میں رکھیں اور دوسرے کو اٹھا کر پھینک دیں۔ نواز شریف جنرل ضیاء کے جڑواں ہم زیست سیاستدان کے طور پر حکمرانی کررہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکمران دن رات کمانے کے پیچھے ہیں، ارب پتی سے کھرب پتی بننے کے چکر میں ہیں۔ ان کا میلان سعودی عرب کی طرف اس لئے ہے کہ اس کے پاس پیسہ ہے۔ ان کی موجودگی میں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی اس مشکل دور سے نکل نہیں سکتی۔ اگر پاکستان کو آزاد ہونا ہے تو خلیجی عرب ممالک بشمول سعودی اور متحدہ عرب امارات کے اثر سے نکلنا ہوگا۔ اس کے لئے خود انحصاری اور اپنے لوگوں کو ملک میں روزی روزگار فراہم کرنا ہوگا۔

تسنیم :خلیجی عرب ممالک کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟

ظفر ہلالی: متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، یہ سبھی امریکا کے پٹرول اسٹیشن ہیں۔ متحدہ عرب امارات تو امریکا و یورپی ممالک کی سپر مارکیٹ بھی ہے۔ یہ حکمران بھارت کے ری پبلک ڈے پر مہمان خصوصی بن کر جاتے ہیں۔ جب پاکستان ان کے کہنے پر اپنے یمنی مسلمان عرب بھائیوں کو مارنے نہیں گیا تو متحدہ عرب امارات کے وزیر نے ہمیں گالیاں اور دھمکیاں دیں۔ یہ پاکستانیوں کی محنت کی وجہ سے ترقی حاصل کرپائے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی مزدوروں کا استحصال کیا ہے۔ اگر ان کا تیل ختم ہوجائے یا دنیا میں تیل کی جگہ دوسرا متبادل ایندھن آجائے تو یہ خلیجی عرب ممالک کے شیوخ پھر صحرا میں اونٹ چرانے چلے جائیں گے!

تسنیم:پاکستان کی خارجہ پالیسی کس طرح بہتر بنائی جاسکتی ہے اور ان چیلنجز سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟

ظفر ہلالی: پاکستان میں مالی بدعنوانی اور خراب انداز حکومت کی وجہ سے ہمارا امیج خراب ہوچکا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی ایک انتہا پسند دہشت گرد ہے لیکن اس کا امیج ہم سے بہتر ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردے گا حالانکہ پاکستان نے کبھی طالبان صفت لوگوں کو الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالے لیکن امیج خراب ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بدعنوان لوگ حکمران ہیں۔ ہمارا موقف بھی بہتر ہے کہ ہم شام، عراق یا یمن جنگ میں فریق نہیں بنے۔ اب یہ دیکھیں کہ کون اسرائیل کا دوست ہے۔ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ہندوستان یہ سبھی اسرائیل کے دوست ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کو خود انحصاری کی پالیسی اپنانی ہوگی اور آئندہ ایک عشرے یا پندرہ سالوں میں اپنی ضرورت کی ہر چیز پاکستان میں پیدا کرنا ہوگی۔ پاکستان کو ایک ایماندار اور اہل سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو اصول پرست ہو اور پیسے کو اصول نہ بنالے۔ کوئی پیر فقیر نہیں بلکہ وہ جو اسٹیٹ کرافٹ کے فن کا بھی ماہر ہو۔ آپ نواز شریف کے ڈرائنگ روم، لباس و مکان کو دیکھیں کہ کیا وہ ایک غریب اور مقروض ملک کا حکمران ہوسکتا ہے؟ ایسا حکمران چاہئے جس کی دولت پاکستان میں ہی ہو۔ ایسے سیاستدان جن کا اپنا پیسہ ملک سے باہر ہو، وہ پاکستان کو کوئی بہتر پالیسی کیسے دے سکتا ہے؟

تسنیم: بھارت اور سرائیل کی بڑھتی ہوئی قربتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ظفر ہلالی: بھارت اسرائیل تعلقات خطرہ ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے بڑے ممالک کر کیا رہے ہیں؟ کیا او آئی سی اب او آئی نو سی نہیں بن چکا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر امت اسلامی کے ان ممالک کو خاص طور پر پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کو زیادہ فعالیت دکھانے کی ضرورت تھی۔ اردگان پاکستان آئے اور اسرائیلی صدر نے بھارت کا دورہ کیا تو کیا اردگان نے کوئی رد عمل ظاہر کیا؟ کیوں نہیں کہتے یہ سارے حکمران کہ جو کوئی کشمیر اور فلسطین کے غاصبوں سے دوستی رکھے گا، ہم اس سے تعلقات خراب کرلیں گے۔ ان ملکوں کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کردیں گے۔ ترک صدر تو خود نیٹو اتحاد کا حصہ ہیں، وہ تو پہلے اس اتحاد سے نکلیں۔ اسلام اسلام کرتے ہیں تو پہلے اسلام کے لئے کچھ کرے تو سہی۔ ترکی اپنی کھال کو گھس گھس کر سفید کرلیں تب بھی یورپ انہیں سفید فام نہیں مانتے۔ اگر امت اسلامی کا حصہ ہو تو کیوں یورپی یونین میں شمولیت کرنا چاہتے ہو۔ ان عرب حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ عجمی مسلمان ممالک کو poor cousin کہہ کر کم تر درجے کا انسان قرار دیتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے ہوتے ہوئے حالات بہتر ہوسکتے ہیں؟

تسنیم:ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا حال تو آپ نے بیان کردیا ، اب یہ بھی فرمائیں کہ آپ کی نظر میں ان تعلقات کا مستقبل کیسا ہونا چاہیے؟

ظفر ہلالی: ایران کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ہونے چاہئیں۔ مشترکہ دفاع کا معاہدہ بھی ہونا چاہئے۔ دونوں کی مشترکہ سرحدوں پر مشترکہ پٹرولنگ ہونی چاہیے۔ دونوں کے درمیان آزاد تجارت ہونی چاہیے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے شہریوں کے لئے ویزا کی پابندی ختم کردیں۔ نو ویزا سفر۔ یہ کامیاب پڑوسی ممالک کے اچھے تعلقات کی نشانیاں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ویزے کے لئے قطار بناکر کھڑے نظر آئیں۔ ایرانی ہمارے بارے میں صحیح کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

تسنیم:آپ یمن میں سفیر رہے ہیں، وہاں اب جنگ مسلط کردی گئی ہے، آپ کو اس مسئلے کے بارے میں زیادہ بہتر معلومات ہوں گی؟

ظفر ہلالی: یمن جنگ یکطرفہ جنگ ہے۔ سعودی عرب کے طیارے جب چاہتے ہیں بم گرادیتے ہیں۔ امریکہ ان کے طیاروں کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اسپتالوں، اسکولوں اور تعزیتی اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ہزاروں بے گنا ہ یمنی بھائیوں کا خون بہایا ہے۔ یہ جنگی جرائم ہیں، اور ان پر سعودی عرب کے خلاف مقدمات قائم ہونے چاہئیں۔ یمن کے پاس تو ایک جہاز بھی نہیں۔ ان کی جانب سے تو کوئی اپوزیشن ہی نہیں ہے۔ اور اس ساری صورتحال میں صرف ایک ہی ملک ہے جو یمن کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور وہ ہے ایران۔ یمن کے عوام ایران سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان کی نسل کشی کرنے والوں کے خلاف ایران ان کی مدد کرتا ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے دور میں بھی ایران نے یمنیوں کی مدد کی۔ یمنی ایرانیوں کا احسان مانتے ہیں۔ میں یمن میں رہا ہوں، یمنی ایران کے ایجنٹ نہیں ہیں بلکہ وہ احسان فراموش نہیں ہیں۔ لیکن یہاں پاکستان میں پالیسی ایسی ہوگئی ہے کہ یمن کے حق میں بولنا قومی مفاد میں نہیں، کہا جارہا ہے کہ عرب ممالک کو یہ جنگ ختم کردینی چاہئے۔