فارسی ایک ہزار سال کے قریب برصغیر کی سرکاری زبان تھی/ استعماری قوتوں نے سازش کے تحت فارسی کو ہٹایا


پاکستان کے معروف شاعر اور دانشور کا کہنا ہے کہ فارسی ایک ہزار سال کے قریب تک برصغیر پاک و ہند کی سرکاری اور تہذیبی زبان رہی ہے، مگر استعماری قوتوں نے فارسی کو ہٹا کر ان کی جگہ پر انگریزی کو مسلط کرنے کی سازش کی چنانچہ رفتہ رفتہ ظاہر ہے کہ فارسی زبان سے اور اس کا پر لرزش فرہنگی تعلق سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر افتخار عارف جنہیں حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران نے فارسی زبان و ادب کے سب سے بڑے سرکاری ادارے میں بورڈ آف گورنر کا رکن منتخب کیا ہے، نے تسنیم نیوز کے ساتھ اہم ادبی موضوع پر بات چیت کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

تسنیم نیوز: دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان زبان و ادب کے رشتوں کو مزید مضبوط بنانے کے لئے کیا منصوبہ رکھتے ہیں؟

افتخار عارف: اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں، تہذیبی، تاریخی، جغرافیائی، دینی طور پر ہمارے رشتے اور روابط ہمیشہ سے بہت مستحکم رہے ہیں اور دنیا میں شاید ہی کوئی دو ملک ایسے ہوں گے جن کے مابین عوامی اور حکومتی سطح پر اتنا ارتباط و تعلق ہو گا، جتنا ہم دونوں ملکوں اور عوام کے درمیان ہے۔ فارسی زبان اور ہماری دینی، تہذیبی و فرہنگی روایات میں بے حد مشترکات ہیں، اور بہت ہی گہرے روابط ہیں، ہمیں ان روابط کو اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے، اور ایک دوسرے سے کسب فیض کرنا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک ہزار سال کے قریب تک فارسی برصغیر پاک و ہند کی سرکاری زبان بھی  رہی ہے۔ اور تہذیبی زبان بھی ہے، اور ہمارے ہاں اپنی زبانوں کے ساتھ ساتھ  فارسی اور عربی کا چلن انگریزوں کے آنے تک بہت تھا، مگر استعماری قوتوں نے فارسی کو ہٹا کر ان کی جگہ پر انگریزی کو مسلط کرنے کی سازش کی چنانچہ رفتہ رفتہ ظاہر ہے کہ فارسی زبان سے اور اس کا پر لرزش فرہنگی تعلق سے دور کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے دینی روایت اتنی مستحکم تھی اور ہمسائیگی سے ایسے دیرینہ تعلقات تھے کہ فارسی زبان کے اکابرین اور ان کے ادب کے اکابرین آج بھی ہمارے لئے باعث منزلت اور ہمارے ادب مشترک کا حصہ ہیں، فردوسی ہوں، رومی ہوں، حافظ و سعدی ہوں، عطار اور خیام ہوں یہ سب ہمارے تہذیبی روایت کا حصہ ہیں، اور یہی صورت احوال ہماری دینی روایت میں ہے، حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ آستانہ رضوی ان کا بہت بڑا حصہ ہے اور ان کی تعلیمات کا ہماری روزمرہ زندگی میں عمل دخل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت کچھ مثبت قائم اور مستحکم ہے، اور بدلتے ہوئے زمانے کے اثرات اس پر نہیں پڑے، ہم آج بھی پہلے کی طرح مستحکم اور متحد ہیں۔

تسنیم نیوز: گزشتہ ہفتے راولپنڈی میں منعقدہ ایک پروگرام میں آپ نے ایک اہم ترین نکتہ کی جانب اشارہ کیا کہ مترجم ایک اہم ترین ذمہ داری ادا کرتا ہے، آج فارسی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتب کا مطلوبہ معیار نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ بہتری کے لئے کیا تجویز دیں گے۔

افتخار عارف: ترجمے کے لئے اصطلاحات وضع کرنی پڑتی ہیں، روایتوں کو قائم کرنا پڑتا ہے، متبادل دیکھنے پڑتے ہیں، مترادف الفاظ تلاش کرنے پڑتے ہیں، محاورے پر نظر رکھنی ہوتی ہے، زبان کے مزاج کو دیکھنا پڑتا ہے، مضمون کی نزاکتوں اور اس کی باریکیوں کو سمجھنا ہوتا ہے، اور یہ سب چیزیں ایک تہذیبی فضا سے ممکن ہوتی ہیں، جب ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کرتے ہیں تو آپ باقاعدہ ایک تہذیبی فن پارے کو دوسری تہذیب میں گویا پیوست و پیوند کرتے ہیں، تو وہ اس وقت تک ہی ممکن ہے، جب آپ دونوں شہروں کی آب و ہوا سے، دونوں شہروں کے مزاج سے بخوبی واقف ہوں، بہت سے لوگ نہایت اعلیٰ درجے کا ترجمہ کرتے ہیں، ہمارے ہزارہ سے اور بلتستان سے، گلگت سے بہت عمدہ ترجمے بھی آئے ہیں، لیکن عمومی طور پر دینی کتابیں، فوری نوعیت کے تراجم ہوتے ہیں، بعض اوقات معیاری نہیں ہوتے اور اس میں باتیں رہ جاتی ہیں، میں نام نہیں لینا چاہتا ہوں، ورنہ میں ان کتابوں کا حوالہ دیتا، جو میری نظر سے گزری ہیں لیکن جب دس بیس سو پچاس کتابیں ترجمہ ہو جاتی ہیں تو صورتحال بہتر ہوتی چلی جاتی ہے، اور فارسی کے بعض ثقیل لفظ بھی آسان ہو جاتے ہیں، چونکہ اب فارسی کا چلن ہمارے ہاں ویسا نہیں ہے جیسے پہلے تھا، تو فارسی لفظ ہمارے ہاں مشکل معلوم ہوتے ہیں، بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کے قومی ترانے میں اردو کا ایک لفظ ہے کا۔ پاک سرزمین کا نظام ۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ جو لفظ فارسی، عربی، ترکی، انگریزی کسی بھی زبان کو کوئی لفظ جو اردو میں رائج ہے، چلن میں ہے، وہ اردو کا لفظ ہے۔ کشور حسین شاد باد، کشور بھی حسین بھی شاد باد بھی اردو کے الفاظ ہیں۔ ان کی اصل فارسی ہے مگر اب وہ اردو کے لفظ ہیں۔ تو یہ بات سمجھنے کی ہے۔ ترجمہ ایک سنجیدہ، ایک بہت مشکل اور بہت اہم کام ہے۔ جس کی اہمیت کو سمجھا جانا چاہیے، جب سے مسلم معاشروں میں ترجمے کی روایت کو ترک کیا گیا، گزشتہ تین سو سال چار سو سال ایسے ہیں، کہ جب ہمارے ہاں ترجمے کی روایت کمزور پڑی، پہلے جو کتب اور مخطوطات  عربی میں مسلسل ترجمہ ہوتے رہے، بنو عباس اور بنو امیہ کا دور ترجمے سے بھرا پڑا ہے، لیکن جب ترجمے چھوڑے گئے تو ایک اور صورت احوال پیدا ہوئی، یعنی ہماری اپنی زبانیں بھی ترجمے نہ ہونے کی وجہ سے کمزور پڑیں۔

تسنیم نیوز: ہم دیکھتے ہیں کہ پاک ایران ثقافتی اور ادبی تعلقات مسلسل فروغ پا رہے ہیں، نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد میں گوشہ حافظ شیرازی کی بنیاد رکھی گئی اسی طرح تہران میں اقبال پر تحقیقی کام ہو رہا ہے، ایسے اقدامات آپ کے خیال میں ثقافت و فرہنگ کی ترویج کے لئے کس قدر اہم ہیں؟

افتخار عارف: دیکھئے پہلے سے موجود خوشگوار خیر سگالی کے تعلقات، اس طرح کے اداروں کے قیام سے باضابطہ ہو جاتے ہیں، اور ان کی ترویج و فروغ میں آسانی ہوتی ہے، مکالمے اور افہام و تفہیم میں آسانی ہوتی ہے، مکالمے کی روایت کو آگے بڑھانے میں آسانی ہوتی ہے، ایک دوسرے سے تبادلہ خیال میں آسانی ہوتی ہے، کوئی جگہ میسر آتی ہے جہاں بیٹھ کر مکالمہ ہوتا ہے، جہاں ہم ایک دوسرے کے فرہنگی احوال، کونسی کتب آئی ہیں، کونسے رسالے چھپ رہے ہیں، کونسی فلمیں بن رہی ہیں، کونسے لوگ مصوری کے شعبے میں کام کر رہے ہیں، معماری میں کیا کام ہو رہا ہے، آثار کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے تو یہ تمام امور فنون سے متعلق اداروں کے توسط سے عوام تک پہنچیں تو اس کے بہت ثمرات ہو سکتے ہیں۔

تسنیم نیوز: ایرانی فلمیں پاکستان میں دکھانے کے حوالے سے بات چلی ہے، یہ فلمیں ہماری ثقافت اور ہمارے عوام پر کس طرح کے اثرات مرتب کریں گی؟

افتخار عارف:دیکھئے دونوں مسلم معاشرے، اپنی تہذیبی اور دینی روایات کو بہت عزیز رکھتے ہیں، یورپ اور مغرب میں جو فلمیں بنتی ہیں، یا جو تھیٹر ہوتے ہیں، ان کی اپنی روایت اور ان کا اپنا پس منظر ہے، لیکن تکنیکی طور پر اور موضوع کے اعتبار سے اور فنی طور پر ایران سینما میں اور خاص طور پر ڈاکومنٹریز میں بہت آگے ہے اور بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثلا ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ایک حصے پر ہمارے دوست ماجد مجیدی نے بنائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نہایت اعلیٰ درجے کی فلم ہے، دنیا میں کسی بھی جدید فلم کے مقابلے میں وہ فلم رکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ٹیلی وژن فلم ہے مختارنامہ یا یوسف جو حضرت یوسف علیہ السلام پر بنائی گئی، تو ڈاکیومنٹریز اور فلم کے میدان میں ایران نے بہت ترقی کی ہے، بین الاقومی معیار کی نہیں بلکہ ان سے بہتر فلمیں پروڈیوس کی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اور مسلم معاشرے میں ان کی نشر و اشاعت کسی قسم کا کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں پیدا کرے گی۔