6 جولائی 1980ء ۔۔۔ پاکستان کی تاریخ میں ملت تشیع کا یادگار دن


1980ء میں جب ملت تشیع اپنے مطالبات کے حصول کے لیے اسلام آباد میں جمع ہوئی تو مذاکرات کی ناکامی کے بعد عوام نے اپنے قائد مفتی جعفر حسین کی قیادت میں سیکرٹریٹ پر قبضہ کرلیا۔ مارشل لاء کی حکومت نے مذاکرات کے بعد مطالبات منظور کر لئے جس کے مطابق آئندہ قانون سازی میں فقہ جعفریہ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: 1980ء میں جب ملت تشیع اپنے مطالبات کے حصول کے لیے اسلام آباد میں جمع ہوئی تو مذاکرات کی ناکامی کے بعد عوام نے اپنے قائد مفتی جعفر حسین کی قیادت میں سیکرٹریٹ پر قبضہ کرلیا۔ مارشل لاء کی حکومت نے مذاکرات کے بعد مطالبات منظور کر لئے جس کے مطابق آئندہ قانون سازی میں فقہ جعفریہ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

اس معرکے میں شورکوٹ کا ایک نوجوان محمد حسین شاد شہید ہو گیا۔

6 جولائی 1985ء میں شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے حکومت وقت کو قائد مرحوم سے کیا وعدہ یاد کرانے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے اس دن احتجاج کا اعلان کیا۔ تین صوبائی مقامات لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں احتجاجی جلسے ہوئے۔ لاہور میں مسجد شہداء کے سامنے مال روڈ پر جلسہ منعقد ہوا جبکہ کوئٹہ میں جب لوگ امام بارگاہ سے باہر نکلے تو پولیس نے ان پر اندھا دھند فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 16 افراد شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے جبکہ سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

اسیران کی رہائی کے لیے قائد شہید نے یکم مئی 1986ء کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ لانگ مارچ کی مہم کے نتیجے میں یکم مئی سے قبل ہی اسیروں کو رہا کر دیا گیا۔

6 جولائی 1987ء اہل تشیع ملت نے پاکستان کے نظام پر اپنا موقف پیش کیا۔ مینار پاکستان کے میدان میں عظیم شان قرآن و سنت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں منشور" ہمارا راستہ" کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس منشور میں نظام حکومت کے ہر پہلو پر ملت کا موقف پیش کیا گیا۔ شہید سید عارف حسین الحسینی نے تاریخی خطاب کیا۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے فرمایا تھا کہ یہاں ملت نے ارتقاء کی طرف قدم بڑھایا ہے کہ اپنے مسائل کے بجاے ملک اور قوم کے مسائل کے لیے سوچنا شروع کیا ہے۔

زندہ ملتیں ہمیشہ اپنے یادگار دن یاد رکھتی ہیں۔