داعش ایک خطرناک وائرس ۔۔۔ (تیسری قسط)


رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجّ آخر کے موقع پر مسلمانوں سے فرمایا: "خوب غور و فکر کے ساتھ اسلامی حقائق و معارف کو سمجھنے کی کوشش کرو اور میرے بعد کافروں کی شکل اختیار نہ کر لینا کہ ایک دوسرے کی گردن کاٹنا شروع کردو"۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: افسوس کی بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ بات اب عملی جامہ پہن چکی ہے۔ اس وقت تکفیری وہابیوں کے نام سے جاہل اور متعصب گروہ کافروں کی مانند دوسرے مسلمانوں کے ساتھ  سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور شیعہ اور سنی مسلمانوں کا آسانی سے قتل کر رہے ہیں۔

ایران کے ممتاز عالم دین آیۃ اللہ جعفر سبحانی برسوں سے فرقۂ سلفیت کے مہمل اور باطل عقائد پر تحقیق کر رہے ہیں اور ان کے جواب میں کتابیں اور مقالے لکھ رہے ہیں۔ علامہ جعفر سبحانی نے تکفیری سلفی فرقہ سے ان کے عقائد و نظریات کے حوالے سے کچھ سوالات کئے ہیں جو ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پر پیش کئے گئے ہیں اور سلفی رہنما ان سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہے ہیں اس لئے کہ تکفیری سلفیوں کے اعتقادات کی بنیادیں مستحکم نہیں ہیں۔

آیۃ اللہ سبحانی کا ان سے پہلا سوال یہ ہے کہ سلفیوں کا کہنا ہے کہ صحابہ اور تابعین کی پیروی کرنی چاہیے اس لئے کہ ان کی عقل و فہم حق و باطل کا معیار ہے پھرانہوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث سے دلیل پیش کرتے ہوئے ہجری قمری کی تین ابتدائی صدیوں کو صحابہ اور تابعین کا دور اور ان تین صدیوں میں مسلمانوں کے عمل کو حق و باطل کا معیار قرار دیا ہے۔ سلفیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث کو اپنی باتوں کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ جس میں آیا ہے کہ بہترین افراد، میرے دور کے افراد ہیں۔ اس کے بعد وہ ہیں جو ان کے بعد آنے والے ہیں پھر اسی طرح وہ لوگ جو ان کے بھی بعد آئیں گے بہترین  افراد ہیں۔

یہاں آیۃ اللہ جعفر سبحانی کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلے سو سال یعنی پہلی صدی ہجری قمری کو شریف ترین اور بہترین ترین صدی قرار دیا جائے ؟ جب کہ تمام بدعتیں کم و بیش اسی صدی میں وجود میں آئی ہیں۔ اسی طرح جیسا کہ خوارج، مرجئہ، معتزلہ اور دیگر اکثر مذاہب و فرق باطلہ، پہلی صدی ہجری قمری کے اواخر اور دوسری صدی ہجری قمری کے اوائل میں وجود میں آئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم بشریت کے لئے آخری آسمانی کتاب اس سلسلہ میں بہترین ماخذ و مدرک ہے۔ اس کتاب عظیم میں لفظ قرن، سات مرتبہ استعمال ہوا ہے لیکن کہیں پر بھی اس لفظ سے سو سال مراد نہیں ہے لغت عرب میں قرن ایک نسل کے بعد دوسری آنے والی نسل کو کہتے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث میں بھی قرن سے مراد  ایک نسل ہے نہ کہ ایک صدی کے افراد۔ اگر اس فرقہ کی تازہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پورا عالم اسلام ان سے تری طرح تنگ ہے۔۔ بعض اسلامی ممالک میں تکفیریوں کی دہشت گردانہ سرگرمیاں تیز تر ہونے کے ساتھ اس کے مقابلے کے لئے منظم اقدامات بھی شروع ہو چکے ہیں۔ ان ملکوں میں مصر بھی شامل ہے جہاں (تکفیری فکر کا مقابلہ محاذ) نے مصر کے مختلف صوبوں میں قافلے بھیجے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد حقیقی اسلام سے عوام کو روشناس کرانا اور تکفیری نظریات کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسی طرح الازہر کے بعض علماء کے تعاون سے حقیقی دین اسلام کے تعارف کے حوالے سے دس ہزار کی تعداد میں کتابچے عوام میں تقسیم کرنے کے لئے فراہم کئے گئے ہیں۔ ان کاروانوں کے کوآرڈی نیٹر صبرہ قاسمی نے اس بارے میں کہا ہے کہ الازہر کے بعض علماء بھی (تکفیری نظریہ کے خلاف محاذ) کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ مصر کو بھی بحران زدہ بعض دیگر اسلامی ملکوں کی طرح تکفیری لہر کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ تکفیریوں نے مصر میں مسلمانوں اور خاص طور سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر تکفیریوں نے غیر انسانی اور وحشیانہ اقدام الجیزہ صوبہ میں انجام دیاتھا  تکفیریوں نے اپنے اس وحشیانہ اقدام میں شیعہ عالم دین علامہ شیخ حسن شحاتہ کو ان کے تین ساتھیوں سمیت شہید کردیا تھا۔ مصر میں پیش آنے والے اس واقعہ سے اس ثقافتی ملک کے وقار اور اس ملک میں موجود مسلمان معاشرے کو کافی نقصان پہنچا۔ تکفیری گروہ  اس وقت شام، عراق، افغانستان، پاکستان، تیونس اور لیبیا میں وسیع پیمانے پر غیر انسانی اور وحشیانہ کاروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ اس رجعت پسند تکفیری نظریہ کا مقابلہ صرف اسلام کے انسان ساز طرز فکر اور انصاف پسند نظریات اور حقیقی اسلام کی تبلیغ، نیز مسلمانوں اور عالمی رائے عامہ کو حقیقی اسلام سے آگاہ اور روشناس کرانے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسلام کے تمام پیرووں کو چاہیے کہ عام مسلمانوں کو حقیقی اسلام سے آگاہ کرنے کے لئے رضا کارانہ طور سے کمر بستہ ہو جائیں۔

قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تکفیری فکر تاریخ اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس کی ماہیت کا وجود ملتاہے جو چیز ماضی سے دور حاضر کی تکفیری لہر کو الگ کرتی ہے وہ چار خصوصیات پر مشتمل ہے ایک اسکا عالمی پہلو ہے۔ دوسرے تکفیریوں کا عالمی تحریک کی شکل اختیار کرنا ہے۔ تیسرے تکفیریوں کا وحشیانہ اور غیر انسانی قتل عام کا عمل انجام دینا ہے اور چوتھے عالمی رائے عامہ کے نزدیک الہی اسلام کے چہرے کو بگاڑ کے پیش کرنا ہے۔

تکفیری گروہوں کے وحشیانہ اقدامات نے اسلام کے نام سے عالمی سطح پر مغربی حکومتوں کے اسلام ہراسی کے پروپیگنڈے کے ذریعہ حقیقی اسلام کے چہرے کو بگاڑنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس تکفیری لہر کے مقابلے کے لئے پہلے کچھ امور کی انجام دہی ضروری ہے۔ سب سے پہلے تکفیریوں کے نظریات کے معیارات کی شناخت لازم ہے۔ اس کے بعد تکفیری بنانے والے عناصر کی شناخت اہمیت کی حامل ہے اور پھر تکفیری لہر کی ماہیت کی شناخت کے بعد تکفیری نظریہ کے عوامل کو پہچاننا چاہیے اور پھر اس کے مقابلے کے لئے راہ حل  تلاش کرنا چاہیے وہ راہ حل جو تمام مذاہب کی شراکت اور اتفاق نظر اور سب کا لحاظ رکھے جانے پر مشتمل ہو۔ تکفیر کا پہلا معیار نمایاں تشدد ہے۔

تشدد، ایک آشکارا ترین پہچان ہے جس کے ذریعہ ایک تکفیری کی شناخت کر لی جاتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے دور کے تکفیریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "تمہاری تلواریں تمہاری گردنوں پر لٹکی ہوئی  ہیں"۔ تلوار کی جگہ کمر ہوتی ہے، لیکن جب کوئی تلوار گردن کے قریب لئے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی کے قتل کا عزم رکھتا ہے۔ تکفیریوں کی دوسری پہچان ان کا بے قصور افراد پر ظلم کرنا ہے۔ تمام افراد کو ایک جیسا سمجھنا اور سب کا قتل عام کرنا اسلامی اور قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس لئے ہر شخص کے گناہ کا بوجھ اسی کے کاندھے پر ہے۔ اسلام یہ نظریہ رکھتا ہے کہ اگر باپ نے غلطی کی ہے تو اس کے فرزند کو اس کی سزا نہیں دی جائے گی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ تکفیری گروہوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے ہیں۔ ایسا کوئی روز نہیں ہے جس دن مشرق وسطی میں درجنوں بے قصور افراد کے مارے جانے کی خبر نشر نہ ہو جن میں عورتیں اور بچےبھی شامل ہوتے ہیں۔ اس قسم کے وحشیانہ اقدامات تکفیریوں کی خصوصیت ہے۔ تکفیریوں کی تیسری علامت دوسروں کی تکفیر کرنا ہے۔ تکفیری پہلے دوسروں کو گمراہ بتاتے ہیں اور پھر ان کی تکفیر کرتے ہیں ابتداء میں وہ ایک فرد یا ایک ایک چھوٹی انجمن کو گمراہ قرار دے کر اس کی تکفیر کرتے ہیں اور پھر گمراہوں اور کافروں کا دائرہ وسیع کرتے جاتے ہیں۔ تکفیری ہمیشہ متدین اور دین داروں کا دائرہ تنگ کرتے ہیں۔ جیسا  کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے دور کے تکفیریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "تمہیں ہم سے مخالفت اس لئے ہے کہ تمہاری نظر میں ہم خطاکار اور گمراہ ہیں تو کیوں سب کو اپنی تلواروں کے حملوں کا نشانہ بناتے ہو؟ اور قصور وار اور بے قصوردونوں کو ایک جیسا سمجھتے ہو"۔

تکفیر کے عوامل میں سے دو اہم ہیں یعنی جہالت اور نفسیاتی عنصر۔ جہالت کبھی عقل اور کبھی فقہ کے مقابل قرار پاتی ہے یہاں جہالت سے مراد اسلام شناسی کے مقابلے میں آنے والا مفہوم ہے۔ تکفیری سمجھتے ہیں کہ دین اسلام سے وابستہ ہیں حالانکہ جو کچھ ان کے پاس ہے اور جو ان کے عقائد ہیں ان کا تعلق دین اسلام سے نہیں ہے۔ رجعت پسند نہ تو دین اسلام کے خدا سے وابستہ ہے اور نہ اس نے دینی احکام کو سمجھا ہے اور آئندہ کے راستے یعنی آخرت پر بھی اس کا عقیدہ نہیں ہے اور جہنم سے اسی لئے اسے کوئی خوف بھی نہیں ہے۔ وہ ایک فکری تعصب کا شکار ہے اس کا تکفیری نظریہ تمام مسائل میں اس کی تنگ نظری کا باعث بنتاہے۔ اگر کسی معاشرے میں تکفیر ایک منظم شکل اختیار کرلے تو وہ معاشرہ رستگاری اور معنویت کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ آج یہ تکفیری مسئلہ علماء اور امت اسلامیہ کے عزم و ارادہ اور باہمی تعاون سے حل کیا جاسکتا ہے۔

اگر عالم اسلام کے علماء خواہ سنی ہوں یا شیعہ باہمی اتحاد کے ساتھ تکفیر ی گروہوں کے نظریات کا مقابلہ کریں تو عالم اسلام کی یہ مشکل بھی حل ہو سکتی ہے۔ اسلام اور سنت سے تکفیریوں کے غلط استفادہ اور ان کے گمراہ کن نظریات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اہم ترین اقدام تقریب بین المذاہب کی تنظیموں کی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنا ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کے حامی مغربی تسلط پسند ممالک تکفیری گروہوں سے دہرے فائدے اٹھارہے ہیں ایک طرف سعودی عرب کو جو مشرق وسطی میں امریکہ کا اسٹرٹیجک اتحادی ہے، شام اور عراق اور بعض دیگر اسلامی ملکوں میں تکفیری اقدامات کی سیاسی اور مالی مدد کرکے مذہبی اور قومی اختلافات پیدا کرنے کےلئے استعمال کر رہے ہیں اور دوسری جانب مغربی حکومتیں ان ہی تکفیری گروہوں کو ان کی تشدد آمیز کارروائیوں کے ذریعہ حقیقی اور الہی اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ اس لئے عالم اسلام کے خطرناک نظریات کے حامل تکفیریوں کے مقابلے کی واحد راہ حل عوام کو حقیقی اسلام سے آگاہ کرنا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔