شعر و ادب کی سرزمین شیراز میں واقع نصیرالملک مسجد کا سحرانگیز فن تعمیر


اسلامی جمہوری ایران کے شہر شیراز میں ناصر الملک نامی مسجد، دنیا کی قدیمی اور خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے، جسے دیکھنے سالانہ ایران سمیت دنیا بھر سے ہزاروں مذہبی سیاح شیراز کا رخ کرتے ہیں۔

تسنیم خبررساں ادارہ: دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ تمام ادیان اور مذاہب کے لوگ دنیا بھر میں مذہبی ثقافت، تہذیب اور تاریخ سے آشنائی حاصل کرنے کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ مذہبی سیاحت کا بنیادی مقصد مذہبی تجربات بھی ہوسکتے ہیں۔

آج ہم اپنے معزز قارئین کو سرزمین شعر و ادب یعنی شیراز میں موجود ایک سحرانگیز مسجد سے روشناس کرانے جارہے ہیں جو فن تعمیر میں لاثانی ہے۔

یوں تو دنیا بھر میں لاتعداد خوبصورت اور وسیع مساجد موجود ہیں جو دیکھنے والوں کو نہ صرف روحانی طور پر بلکہ تفریحی اور سیاحتی طور پر بھی سکون فراہم کرتی ہیں۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں کئی ایسی بھی مساجد موجود ہیں جو خوبصورتی اور فنِ تعمیر کا شاہکار مانی جاتی ہیں جن میں سے ایک ایران کی ناصرالملک نامی مسجد ہے۔

ایران کے خوبصورت اور شعر و ادب کے شہر شیراز میں قائم یہ مسجد ایک تاریخی عمارت ہے جسے 1888 میں 12سال کی مدت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ مسجد مرزا حسن علی خان نصیر الملک کے حکم سے تعمیر کی گئی تھی اس لیے اس مسجد کا نام بھی نصیرالملک مسجد ہے، اس مسجد کے کئی اور نام بھی ہیں جیسے کہ گلابی مسجد اور رنگوں والی مسجد، رنگوں والی مسجد اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں خوبصورت مختلف رنگوں کے شیشے نصب کئے گئے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو پوری مسجد رنگا رنگ روشنیوں سے کھل اٹھتی ہے۔

یہ مسجد، خطے خاص کر ایرانی  ثقافت کے عین مطابق بنائی گئی ہے جیسے مینار، گنبد، صحن، وضو کے فوارے (یا تالاب یا نلکوں والی جگہ)، نماز کے لیے ہال، وغیرہ شامل ہیں۔

اس مسجد کے گنبد کو بہت ہی خوبصورت طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصوں پر بڑی خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔ بعض جگہوں میں شیشے لگائےگئے ہیں جس سے روشنی بھی اندر آسکتی ہے۔ گنبد کی اندرونی نقاشی زیادہ تر گہرے نیلے، فیروزی یا سرخ رنگ میں کی گئی ہے۔

اگرچہ مساجد عمومی طور پر نماز کی ادائیگی اور عبادات کے لئے استعمال ہوتی ہیں لیکن معاشرے میں مساجد کا کردار سماجی، ثقافتی اور تہذیب کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے مثال کے طور پر مسلمانوں کے روزمرہ مسائل کے حل کے لئے اجتماعات، تعلیمی مقاصد جیسے درس و بحث، مسلمانوں کے متنازعہ مسائل کا حل وغیرہ۔

اگرچہ بعض سادہ لوح مسلمانوں کا خیال ہے کہ مساجد کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے اور مساجد صرف اور صرف اللہ تعالی کی عبادت کے لئے مختص ہونی چاہیں لیکن مساجد کا سیاسی کردار تاریخی طور پر خود پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے ہی جاری رہا ہے لہذا تمام اسلامی انقلابی تحریکوں نے مساجد سے ہی جنم لیا ہے۔

صدر اسلام سے ہی مسجد اللہ تبارک و تعالی اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی توجہ کا مرکز رہی ہے، مسجد کا مسلمانوں کی کامیابیوں اور اسلام کے پھیلاؤ میں نہایت اہم کردار ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مسجد پر آئمہ اطہار علیہم السلام کی خاص توجہ تھی انہوں نے مسجد کے ذریعے سے ہی لوگوں کو اسلام ناب محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف جلب کیا۔ آئمہ اطہار علیہم السلام نے مسجد کو اسلام کے بنیادی اور اہم ترین مراکز کے طور پر مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے لئے اور اسلامی تہذیب اور تمدن کی تشکیل کے لئے نہایت اہم درجہ دیا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد سب سے پہلا اور اہم ترین کام جو کیا وہ مسجد کی بنیاد تھی۔ ایک ایسی مسجد جو بعد میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہوئی، یہ تقدس اور شان و وقار کے اعتبار سے مسجد الحرام کے بعد پہلی مسجد ہے۔

جب مسجد تیار ہوئی تو یہ مسلمانوں کو اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے لئے ایک معنوی اور روحانی مکان ہونے کے ساتھ ساتھ  ایک اہم درسگاہ بھی ثابت ہوئی، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی اسلام نے اپنی جڑیں مضبوط کیں، اسی مسجد سے ہی کفر و شرک کے خلاف تبلیغ کا آغاز ہوا اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر امت واحدہ کی شکل میں کفر و شرک کے سامنے آنے کی ہمت بخشی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ مقام ہے جہاں پر عبادت الہی کے علاوہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام پاتا تھا۔

البتہ ایک اہم نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے ایک قریبی مقام قبا میں چودہ دن یا اس کے لگ بھگ قیام فرمایا اور اس دوران وہاں مسجد تعمیر فرمائی۔ یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں باقاعدہ طور پر تعمیر کی گئی۔

پیغمبر اسلام اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں نے جگہ جگہ مساجد تعمیر کئے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا بھر میں مساجد کا شمار مسلمانوں کے اہم ترین مراکز میں ہوتا ہے جن کے مقاصد صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی مراکز بھی مسجدیں ہی ہیں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی میں مساجد کا نہایت اہم کردار رہا ہے اس کے علاوہ ایران پر مسلط کی گئی 8 سالہ جنگ  اور دیگر ہنگامی حالات کو احسن طریقے سے نمٹانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی میں مساجد کا کردار

مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و منبع ہمیشہ سے ہی مسجد ہی ہے۔ مساجد ہی ہمیشہ سے دین اسلام کی آبیاری اور تبلیغ و ترویج کے مراکز رہے اور مستقبل میں بھی قیامت تک انشاء اللہ یہی مراکز دین کی آبیاری اور سیرابی کا ذریعہ رہیں گے۔

دور حاضر خاص طور پر انقلاب اسلامی کی کامیابی میں بھی صدر اسلام کی طرح مساجد نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کی تمام انقلابی پارٹیوں کی اجتماعات کی جگہ مساجد ہی تھیں۔ جیسے کہ امام خمینی نے فرمایا: ''مساجد کی وجہ سے ہماری قوم کو فتح اور نصرت نصیب ہوئی'' (صحیفه امام، ج‏13،ص15)۔ امام خمینی نے آئمہ اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انقلابی تحریک کا آغاز مساجد سے ہی کیا۔ محراب و منبر سے ہی طاغوتی طاقتوں کے خلاف تبلیغ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور اللہ تعالی نے ان کو زبردست کامیابی بھی عنایت فرمائی۔

انقلاب کے دور میں مسجد کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ امام خمینی نے 1978ء میں جب اعلان کیا کہ ساری قوم مساجد میں اجتماعات منعقد کرے تو ملک بھر کی تمام مساجد لوگوں سے بھر گئیں۔

ترتیب و پیشکش: غلام مرتضی جعفری