فیض آباد دھرنا: مظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز, جھڑپیں


اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج پر 7 نومبر سے دھرنے پر بیٹھے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق دھرنے کے شرکاء کو صبح 7 بجے تک دھرنا ختم کرنے کی حتمی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم ڈیڈ لائن کے ختم ہونے کے بعد 8 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں نے دھرنے کے شرکاء کو چاروں اطراف سے گھیر کر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

تاہم شدید شیلنگ اور ہوا کا رخ پولیس کی جانب ہونے کے باعث سیکیورٹی اہلکاروں کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

دھرنے کے شرکاء کے پاس شیلنگ سے بچنے کے لیے ماسک اور پتھراؤ کے لیے گُلیل موجود ہیں جس سے مسلسل سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جارہا ہے۔

دھرنے کے شرکاء کو سیکیورٹی اہلکاروں نے چاروں اطراف سے گھیر لیا اور مظاہرین سے جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے جبکہ 30 سے زائد افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔

کچھ دیر بعد دھرنے پر مامور شرکاء پر ایک بار پھر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے اکھٹے مارچ کیا گیا جس میں آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں بھی فائر کی جاتی رہیں جس کی وجہ سے مظاہرین بکھر نے پر مجبور ہوگئے۔

پولیس اہلکاروں کی جانب سے دھرنے کے مقام پر مظاہرین کی خیمہ بستی بھی خالی کرالی گئی اور وہاں موجود ان کا سامان بھی جلادیا گیا۔

سنگین صورتحال کے پیش نظر دھرنے کے مقام پر ایمبولینسز بھی منگوائی گئیں جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

دوسری جانب مذہبی جماعتوں کی جانب سے کراچی کے علاقے نمائش چورنگی پر بھی مذہبی جماعتوں کی جانب سے دھرنے پر بیٹھے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں نے تیاری کرلی ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد عدالت نے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کا جاری دھرنا ختم کرنے کے عدالتی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران وزیر داخلہ نے عدالت سے اس دھرنے کو ختم کرانے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت طلب کیا تھا۔

تاہم مقررہ وقت کے گزر جانے کے باوجود وفاقی وزیر دھرنا ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 20 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے احسن اقبال سے کہا تھا کہ کورٹ کا احترام نہیں ہورہا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔

عدالت میں سماعت کے دوران پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد جیسا واقعہ کروانا چاہتے ہیں تاہم پاکستان بھر کے علماء اور مشائخ کو طلب کیا گیا ہے تاکہ معاملے کا پُرامن حل نکلا جا سکے۔

تاہم وفاقی وزیر داخلہ نے عدالت سے 48 گھنٹے کی مہلت مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ راستہ کلئیر کرالیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا۔

23 نومبر کو سپریم کورٹ میں اسلام آباد دھرنے سے متعلق وفاقی وزارتِ دفاع اور وفاقی وزارتِ داخلہ کی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں تھیں تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ میں ایک کیس کی جاری سماعت کے دوران وکلا کے مقررہ وقت پر نہ پہنچنے ہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ 'اس پر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟'۔

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔