حماس فلسطین میں استقامت اور مزاحمت کے فطری تسلسل کا نام ہے
حماس کے سربراہ نے ہزاروں فلسطینیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس فلسطین میں استقامت اور مزاحمت کے فطری تسلسل کا نام ہے۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق القدس کے خلاف امریکی صدر کے حالیہ فیصلے کے بعد فلسطین اور بیت المقدس کا معاملہ ایک بار پھر عالم اسلام کے مرکزی اور بنیادی مسئلے میں تبدیل ہو گیا ہے اور نئی تحریک انتفاضہ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اپنے خطاب میں یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ کو بیت المقدس کے بارے میں اپنے فیصلے سے پسپائی پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر پوری توانائیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ اسرائیل نام کا کوئی ملک موجود ہی نہیں ہے کہ کسی شہر کو اس کا دارالحکومت قرار دیا جائے۔
اسماعیل ہنیہ نے ایک بار پھر اپنی تنظیم کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ تحریک حماس اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔
حماس کے سربراہ نے کہا کہ ان کی تنظیم امریکی صیہونی سازش کے مقابلے کی غرض سے خطے میں ایک مضبوط اور طاقتور اتحاد کے قیام کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے عربوں اور مسلم اقوام سے اپیل کی کہ وہ فلسطین اور بیت المقدس کی خاطر اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آپس میں متحد ہو جائیں۔
اسماعیل ہنیہ کا کہنا تھا کہ حماس اندرون ملک قومی آشتی کی خواہاں ہے ہم چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کے قدس مخالف فیصلے کے خلاف ٹھوس اور مشترکہ موقف اپنانے کے لیے قومی آشتی کو فی الفور یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف احتجاج اور تحریک انتفاضہ کا سلسلہ جاری رکھے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے اپیل کی کہ ہر جمعے کو دنیا کے مختلف ملکوں کے دارالحکومتوں میں ٹرمپ کے قدس مخالف فیصلے کے خلاف مظاہرے کیے جائیں اور امریکہ کی جانب سے فیصلہ واپس لیے جانے تک مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے جمعرات کو اپنا تیسواں یوم تاسیس منایا اور غزہ کے الکتیبہ اسکوائر پر ہونے والی پروقار تقریب، مزاحمت ہمارا انتخاب اور وحدت ہمارا راستہ ہے ، کے نام سے منعقد کی گئی۔