مُلا فضل اللہ کی ہلاکت، پاکستان اور خطے کے لیے ’اہم پیش رفت‘
پاک افغان حکام نے گزشتہ دنوں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں 13جون کو ایک امریکی حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی جس کی موت پاکستان سمیت خطے کیلئے اہم پیشرفت قرار دی جارہی ہے۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: افغان وزارت دفاع کے ترجمان محمد رادمنیش نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو تصدیق کر دی ہے کہ جمعرات کی صبح ایک امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ اور اس کے دو ساتھی مارے گئے ہیں۔ قبل ازیں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹن اوڈونل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’امریکی افواج نے انسداد دہشت گردی کی ایک کارروائی میں پاکستان اور افغانستان کے سرحد پر واقع افغان صوبے کنڑ میں ایک دہشت گرد تنظیمم کے سینئر رہنما کو تیرہ جون کو نشانہ بنایا۔‘‘ اس بیان میں فضل اللہ کا نام نہیں لیا گیا لیکن یہ کہا گیا کہ امریکی افواج اس فائر بندی کا احترام کر رہی ہیں، جو افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان جاری ہے۔
فضل اللہ پاکستان میں 2012 میں ملالہ یوسف زئی، 2014 میں آرمی پبلک اسکول سمیت کئی دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان کئی سال سے افغانستان اور امریکا سے یہ مطالبہ کر تا آیا ہے کہ ملا فضل اللہ، جس نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی، کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پاکستانی انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے پشاور میں بیورو چیف اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فضل اللہ کی ہلاکت سے متعلق کوئی نہ کوئی بیان تو سامنے آئے گا۔ عام طور پر پہلے وہ انکار کرتے ہیں پھر بعد میں مان جاتے ہیں ۔‘‘
پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ میں ملوث یہ سب سے بڑی کالعدم تنظیم ہے۔ یوسف ذئی مزید کہتے ہیں کہ اب پاکستان پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ پاکستان امریکا کے تحفظات اور مطالبات پر غور کرے لیکن فضل اللہ کی ہلاکت یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ پاکستان اور امریکا میں بات چیت ہو رہی ہے اور تعاون بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ یوسف زئی نے کہا، ’’پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔ افغان طالبان نے عید کے موقع پر تین دن کی فائر بندی کا اعلان کیا اور اب پاکستان میں حملوں کے لیے مطلوب فضل اللہ کی ہلاکت، یہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ علاقائی تعاون بڑھ رہا ہے۔‘‘
پاکستانی صحافی زاہد حسین، جو مسلمانوں میں عسکریت پسندی کے حوالے سے کتابیں تحریر کر چکے ہیں، کہتے ہیں، ’’بہت عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ مسئلہ موجود تھا۔ دونوں ممالک کے عسکریت پسندوں نے ایک دوسرے ممالک میں پناہ لے رکھی ہے اور پاکستان کو بہت زیادہ شکایت تھی کہ ٹی ٹی پی، افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے۔ اب مولانا فضل اللہ کی ہلاکت سے پاکستان کو کچھ تسلی ضرور ہوگی۔‘‘ حسین مزید کہتے ہیں کہ افغان حکومت کی فائر بندی کی پیشکش کو افغان طالبان کا قبول کرنا اور پھر پاکستان کو مطلوب دہشت گرد کو ہلاک کیا جانا مثبت پیش رفت ہے۔ حسین کے مطابق مستقبل میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے جس میں پاکستان کا کردار اس لیے کافی اہم ہو گا کیونکہ افغان طالبان کے بہت سے رہنما پاکستان میں موجود ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہت خراب ہیں لیکن امریکا اور پاکستان کے بہت زیادہ مشترکہ مفادات بھی ہیں اس لیے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت بھی جاری ہے، جس میں تھوڑی بہت پیش رفت ہو رہی ہے۔ حسین نے کہا کہ ابھی حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیکل رچرڈ پومپیو نے پاکستانی آرمی چیف کو فون بھی کیا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اب ہمیں وہ تعاون نظر بھی آ رہا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے امیر کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم کا مستقبل کیا ہو گا؟
ماضی میں بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور نئے دھڑے بنے۔ لیکن اس مرتبہ ٹی ٹی پی کے امیر کی ہلاکت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب پاکستانی فوج کے آپریشنز کے سبب یہ تنظیم پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ 2009ء سے پہلے تک ٹی ٹی پی کے قبضے میں پاکستان کا کچھ علاقہ بھی تھا جہاں ان کی رٹ قائم تھی لیکن سوات میں آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے بہت سے دہشت گرد افغانستان فرار ہو گئے تھے۔
یوسف زئی کہتے ہیں کہ آج بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے چند ہزار کارکن موجود ہیں اور اگر انہیں وہاں پناہ دستیاب رہی، تو پاکستان کے لیے خطرہ برقرار رہے گا۔ یوسف زئی نے کہا، ’’فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کا خطرہ مکمل طور پر تو کم نہیں ہوگا لیکن یہ تنظیم اب ویسی طاقت ور اور مضبوط نہیں رہی جیسے کہ پہلے تھی۔‘‘
بشکریہ: ضرب حیدری، سائبر میڈیا گروپ