یمن کی شہ رگ ۔ الحدیدہ سقوط کرگیا تو ...
یہ الحدیدہ پر حملے سے پانچ دن پہلے کی بات ہے کہ اقوام متحدہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اس حملے سے روکنے کے لئے اپنا نمائندہ مارٹن گریفتھس کو بھیجا تھا لیکن دونوں ممالک اس حملے کو صرف اس بات پر روکنے کے لئے تیار تھےکہ الحدیدہ پورٹ اور ایئرپورٹ کا کنٹرول ان کے پاس ہو یا کم ازکم یمنی افواج اور انصار اللہ کے کنٹرول میں نہ ہو۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: لیکن درپرد ہ کہانی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے نمائندے کو پہلے سے یہ معلوم تھا کہ اس مشن میں اس کا اصل مقصد الحدیدہ پر حملہ روکنا نہیں کیونکہ جس انداز میں اس کی کوششیں رہی ہیں وہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے یکجانبہ کرایے کی افواج کے ساتھ اپنی فوج کو لیکر گزشتہ ماہ مئی میں ہی الحدیدہ کی جانب زمینی حملے کا آغاز کیا تھا اور اس نے اس کا نام ریڈ تھنڈر رکھا ہوا تھا، لیکن یہ کاروائی انتہائی سست روی کا شکار تھی اور وہ معرکے کو ایک حدسے زیادہ بڑھاوا نہیں دے پارہے تھے ۔
دوسری جانب اس سے قبل فرانسیسی خفیہ ادارے سے وابستہ ذرائع ابلاغ Periodic Intelligence نے انکشاف کیا تھا کہ ابوظبی نے فرانس کے فوجی جرنیلوں کے ساتھ اپنی افواج کی خصوصی تربیت کے لئے مہنگے داموں معاہدہ کیا ہے ۔
جبکہ اسی اثنا میں نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی اسپیشل دستے سعودی افواج کو انصار اللہ کے میزائل ٹھکانوںاور بچاو کی ترکیب کے بارے میں خصوصی تربیت دے رہے ہیں ۔
لہذا الحدیدہ پر حملے کی تیاریاں پہلے سے جاری تھیں اور اقوام متحدہ کے نمایندے کو بھیجنے کا مقصد صرف رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جونکنے کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔
واضح رہے کہ تین سال قبل یمن جنگ کے آغاز سے ہی امریکی و برطانوی اور دیگر ممالک کے عسکری مشاورین مدد کررہے تھے لیکن اس وقت سب سے بڑی مشکل سعودی اتحاد کے سامنے گرونڈ میں موجود ناکامی اور ان کے اہم ٹھکانوں پر برستے میزائل تھے جس کے لئے انہیں خصوصی قسم کی تربیت اور مدد کی ضرورت پیش آرہی تھی ۔
توجہ رہے کہ یمن پر بے دریغ برسایا جانے والا تمام اسلحہ امریکی اور برٹش یا فرنچ ساختہ ہے ۔
الحدیدیہ پر حملے کو لیکر عالمی و انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے موجود تحفظات کے سبب فرانس برطانیہ اور امریکہ ہچکچاہٹ کے شکار تھے کہ وہ براہ راست اپنے اسپشل دستوں کو گرونڈ میں اتاریں یا نہ اتاریں لیکن دوسری جانب امریکی بزنس ماینڈ صد راور بریکزٹ کرتا برطانیہ سعودی و اماراتی اسلحہ ڈیل اور مالی رشوتوں کے سبب تیار ہوگئے ۔
ادھر اس مسئلے کو پٹھوصدر منصور ہادی کو ابوظبی بلاکر قانونی شلٹر دینے کی بھی کوشش کی گئی تاکہ فرانس اور برطانیہ کی رائے عامہ سمیت عالمی سطح پر جواز بنایا جاسکے ۔
الحدیدہ کی یمن اور انصار اللہ کے لئے اہمیت
الحدیدہ پورٹ یمن کا دوسرا بڑا پورٹ شمار ہوتا ہے اور یہ وہ واحد پورٹ ہے جو گذشتہ ان تین سالوں میں فعال رہا ہے جہاں سے غذائی اجناس اور ادویات کی ترسیل کے علاوہ انسانی بنیادوں پر امداد رسانی کی جارہی ہے ۔
حملہ آورسعودی اتحاد کا کہنا ہے کہ اس پورٹ سے اسلحے کی ترسیل بھی ہورہی ہے اور انہیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یمن کے پاس دور تک مارکرنے والے میزائل نہ پہنچ جائیں جو ان کے شہروں کو نشانہ بنانے کے علاوہ باب مندب کہ جہاں سے روزانہ 4ملین بیرل تیل کی سپلائی ہوتی ہے بھی یمن کے کنٹرول میں جاسکتا ہے ۔
اگر الحدیدہ پورٹ کا کنٹرول یمن کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے اور یہاں حملہ آور وں کا کنٹرول ہوجاتا ہے تو یہ اہل یمن اور انصار اللہ پر ایک بڑی ضرب ہوگی اور ان کی مزاحمت سخت مشکلات کا شکار ہوگی ۔
واضح رہے کہ عدن پورٹ سمیت دیگر تمام پورٹ اس وقت یمن کی دسترس سے باہر ہیں اورصرف الحدیدہ ہی وہ واحد پورٹ ہے جو اس وقت یمن کے پاس ہے ۔
دوسری جانب الحدیدہ دارالحکومت صنعا سے صرف 226کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لہذا اگر حملہ آور افواج الحدیدہ پر قبضہ کرجاتیں ہیں تو دارالحکومت صنعا خود بخود خطرے میں پڑ جائے گا ۔
اس اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے زرائع ابلاغ کے مطابق انصاراللہ اور یمن کی فوج کا پورا فوکس اس وقت اس شہ رگ حیات پر ہے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ الحدیدہ کا سقوط یمن پر حملہ آور جارح افواج کو تین سال سے حاصل ناکامی کو کامیابی بھی بدل سکتا ہے ۔
موجودہ صورتحال اور مزید انسانی المیوں کے خطرات
ہمارا خیال ہے کہ الحدیدہ اگر سقوط کربھی جاتا ہے تو اس سے یمن اور انصاراللہ کے لئے اقتصادی طور پر سخت مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے لیکن عسکری اور مزاحمت کے حوالے سے شائد اس قدر دباو میں اضافہ نہ ہو کیونکہ اس کے بعد جنگ کی نوعیت گوریلا وار کی جانب جاسکتی ہے جس کے لئے بھاری بھر کم اسلحے کی ضرورت نہیں رہتی ۔
اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ سعودی عرب اور امارات کسی بھی قیمت پر الحدیدہ پر قبضہ چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے انہیں وسیع انسانی قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے جبکہ عالمی سطح پر ممکنہ انسانی المیے کو لیکر شدید تحفظات سامنے آرہے ہیں ۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ الحدیدہ پر حملوں کے آغاز نے ہی واضح کردیا کہ یہاں موجود مزاحمت سعودی اور اماراتیوں کو آسانی سے قبضہ کرنے نہیں دے گی جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ اندھا دھند فضائی بمباری کرینگے جس کا نتیجہ انسانی المیہ کی شکل میں نکل آئے گا ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن کی جنگ شائد اب زمین پر کنٹرول سے نکل کر گوریلا وار کی جانب بڑھ رہی ہے اور اس ملک کی صورتحال کم وبیش افغانستان کی بنتی جارہی ہے ۔
اب تک کے معرکے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ الحدیدہ پر حملہ آوروں کو بری طرح ناکامی کا سامنا ہے اور یہ یمن کی فوج اور عوامی رضارہیں جو جنگ کے رخ اور میدان کا تعین کررہے ہیں ۔
لہذاالحدیدہ کا معرکہ ایک طویل معرکہ ہوگا کہ جہاں جارح افواج کو مسلسل بھاری قیمت دینی پڑ رہی ہے ۔
میدان جنگ میں اب تک یمنی افواج اور انصار اللہ کی حکمت عملی یہ بھی رہی ہے کہ جس علاقے سے انخلا کرنا ناگزیر ہوچکا ہے اس علاقے کی انٹری گذرگاہوں میں وسیع پیمانے پر ماینز فٹ کی گئی ہیں جیسا کہ اس وقت الحدیدہ کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ الحدیدہ کے قریبی صحرائی یا جنگی راستوں میں جہاں ایک جانب سنائپرز بیٹھے ہیں وہیں پر ماینز کا ایک جال بھی کئی کلومیٹرز تک پھیلا ہوا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انصار اللہ اور یمن کی فوج جنگ کے دائرے کو بڑھا کر سرحد کی دوسری جانب بھی لے جاسکتی ہے خواہ وہ میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے زریعے ہو یا پھر زمینی کاروائیوں کے زریعے سے ۔
جیسا کہ انصار اللہ کے جوان سال مگر انتہائی زہین اور بردبار لیڈر عبدالمالک الحوثی نے بھی اپنے ایک حالیہ خطاب میں کہا تھا کہ الحدیدہ پر حملے کی صورت میں وہ اپنے اسلحہ اور دفاعی قوت کے آخری سرپرائز کی جانب جاسکتے ہیں اور اس کے بعداس معرکے کی حدود ختم ہوجاینگی اور ایک کھلی جنگ شروع ہوگی ۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب تک جس انداز سے انصار اللہ اور یمن کی فوج نے گذشتہ تین سالوں میں سرپرائز دیے ہیں وہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ابھی ان کے ترکش میں بہت کچھ اور ایسا کچھ ہے جو حملہ آورں کو چونکادے گا ۔
واضح رہے کہ الحدیدہ میں جس قدر جنگ طول پکڑ لے گی اس قدر ہی حملہ آورں کے لئے مسائل بڑھتے جاینگے عالمی سطح پر دباو میں اضافہ ہوگا اور زمینی سطح پر نقصانات بھی بڑھتے جاینگے اور شائد اس وقت انصار اللہ حکمت عملی بھی اس معرکے کو طول دینا ہے اور یہ ان کا انداز بتارہا ہے ۔