تحریک طالبان کا نیا سرغنہ بھی پاکستان کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل


نور ولی محسود جنوبی وزیرستان کے علاقے تیارزہ میں پیدا ہوئے جنہوں نے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی اور اب ایک ایسے گروہ کے سرغنہ مقرر ہوئے ہیں جو شیعہ سنی مسلمانوں بالخصوص پاکستانی فورسز کا خون جائز اور واجب سمجھتا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے گزشتہ دنوں اپنے سربراہ ملا فضل اﷲ کی امریکی حملے میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے نور ولی محسود کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔

ملا فضل اﷲ 13 جون کو امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے تھے۔ افغان اور پاکستانی حکام ان کی ہلاکت کا دعوی کر رہے تھے جس کی تصدیق طالبان نے سنیچر کو ایک بیان میں کی ہے۔

92 نیوز کے مطابق تنظیم کی رہبری شوریٰ نے کثرت رائے سے مفتی نورولی محسود کو تحریک طالبان پاکستان کا مرکزی امیر اور مفتی مزاحم المعروف مفتی حفظہ اﷲ کو نائب امیر مقرر کیا ہے۔

نور ولی محسود جنوبی وزیرستان کے علاقے تیارزہ میں پیدا ہوئے اور وہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں۔

2014 میں امریکی ڈرون نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سروکئی میں نور ولی محسود کے ایک ٹھکانے کو بھی نشانہ بنایا تھا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے اور 8 طالبان مارے گئے تھے۔

نومنتخب امیر مفتی نور ولی محسود نے حال ہی میں 690 صفحات پر مبنی ’’انقلاب محسود، ساؤتھ وزیرستان - فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘‘ نامی ایک تفصیلی کتاب لکھی تھی۔

اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر کارساز، کراچی اور راولپنڈی میں حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی گئی۔

کتاب میں مفتی نور ولی نے اعتراف کیا تھا کہ طالبان گروہ اور تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحریک ہی کی چھتری تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں ملوث رہیں۔