تجزیہ | الیکشن 2018ء اور عوامی مطالبات


اس وقت ہمارے ملک میں الیکشن کا موسم ہے۔ ہر طرف گہما گہمی ہے۔ لیکن اس دفعہ کے الیکشن کے ووٹرس کے تیور تبدیل ہیں۔ لوگ امیدواروں سے سوالات کر رہے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کام کیا ہے؟

اس وقت ہمارے ملک میں الیکشن کا موسم ہے۔ ہر طرف گہما گہمی ہے۔ لیکن اس دفعہ کے الیکشن کے ووٹرس کے تیور تبدیل ہیں۔ لوگ امیدواروں سے سوالات کر رہے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کام کیا ہے؟ مطالبات بھی پیش ہو رہے ہیں۔ لیکن ایک ریاست کی جو بنیادی ذمہ داریاں ہیں ان کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس لیے سوالات اور مطالبات دیگر امور کے لیے ہیں۔ ایک ریاست کی پانچ بنیادی ذمہ داریاں ہیں؛

1۔ امن و امان: جس میں ہر شہری کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ رہے۔

2۔ عدل و انصاف: سماجی معاملات، حقوق و فرائض میں عدل کی فراہمی۔

3۔ تعلیم: ہر شہری کو لازمی تعلیم فراہم کرنا۔

4۔ صحت: ہر شہری کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا۔

5۔ روزگار: ہر شہری کے لیے روزگار فراہم کرنا اور نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک شریفانہ سطح زندگی کے برابر معاونت فراہم کرنا۔

اس کے ساتھ اگر دینی حکومت ہے تو انسانوں کو خدا کی طرف بلانا اور ان کی دینی تربیت کرنا، ریاست کی ذمہ داریوں میں سرفہرست ہے۔

اس کے علاوہ باقی چیزیں اضافی ہیں۔ اگر عوام دیگر چیزیں چاہیں تو انکو ٹیکس دینا پڑیگا اور حکومت ان کا انتظام کرے گی۔ لیکن مندرجہ بالا پانچ چیزیں ریاست کی ذمہ داری ہے جس کے لیے اس کے پاس بہت ساری ملکیتیں ہیں۔ جن سے اسے آمدنی ہوتی ہے۔ جو حکومت اپنی یہ پانچ ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی اسے حکومت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

الیکشن میں جو امیدوار قومی یا صوبائی اسیمبلی کی سیٹ پر کامیاب ہو کر آتے ہیں ان کی ذمہ داری ایسی قانون سازی ہے جو عوام کو مندرجہ بالا سہولیات مہیا کریں اور انتظامیہ پر ایسی نگرانی ہے کہ قانون کا صحیح نفاذ ہو۔ ان کی ذمہ داری نوکریاں بانٹنا یا اپنے حلقہ انتخاب میں روڈ راستے بنوانا نہیں ہے۔ یہیں سے ان کے لیے مال بٹورنے کا راستہ کھلتا ہے۔ ان کی ذمہ داری قانون سازی اور انتظامیہ کی نگرانی ہے اور بس۔

ہمیں چاہیے کہ اسمبلی ممبران کو ان کی حدود میں رکھیں تاکہ کرپشن کو روکا جاسکے۔ اسمبلی ممبران کی پوری توجہ قانون سازی اور انتظامیہ کی نگرانی پر ہونی چاہیے۔

تحریر: سیدحسین موسوی