فرستادہ اتمام حجت کے لئے آیا تھا !!!
وہ خود نہیں آیا تھا وہ فرستادہ تھا، نوجوانی میں بڑوں, بوڑھوں اور نوجوانوں کا راہبر و راہنما بنا، کچھ نے پیروی کی، کچھ نے ساتھ دیا صرف اس لئے کہ اور کوئی راستہ نہ تھا.
خبر رساں ادارہ تسنیم: ان کے پاس، موسمی شخصیات، چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے، سب ساتھ رہے، شاید اس لئے بھی کہ کہیں اگر وہ انقلابی قدم اٹھانا چاہے، تو یہ روک لیں؛ اور اگر کہیں کامیابی یا دنیاوی رعایتیں ہوں تو بےنصیب نہ رہیں۔
لنگڑا لنگڑا کر ساتھ دینے والے بھی تھے جو پانچ سال سے کم عرصے کے اس سفر میں شدید تھکاوٹ محسوس کررہے تھے، کیونکہ وہ روشنی کی رفتار سے روشنی پھیلانے والے تھے اور یہ بیچارے کند رفتار تھے۔
چنانچہ جب فرستادہ گیا تو سکھ کا سانس لینے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی جن میں سے کچھ کو ان کی وراثت بھی ملی اور عوامی حمایت بھی لیکن بوجھ بہت بھاری تھا. لوگوں کو توقع تھی کہ فرستادے کے جانشین بھی ویسے ہی ہونگے لیکن ایسا ہوا نہیں چنانچہ ایک ایک کرکے اہداف عالیہ کو چھوڑتے رہے یہاں تک کہ ہمارے لئے مثالی حیثیت رکھنے والے مناصب نمایشی عہدوں میں بدل گئے اور عنوانات اور خطابات کا سہارا لینے کا وقت آیا، انحراف کا زمانہ آیا جو کافی طولانی تھا اور ہے.
الم اعہد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوالشیطان کو بھول کے نئے نئے عہد و پیمانوں کا زمانہ آیا جو کافی طولانی رہا، یتیموں کو مارا جانے لگا تو امریکی حکام سے لے کر اقوام متحدہ تک کے اعلی اہلکاروں نے ان کے قتل کی زبانی مذمتیں کیں اور شہید فرستادے کے جانشینوں نے بھی اپنے مذمتی بیانات جاری کئے جیسا کہ وہ بھی کسی بین الاقوامی ادارے یا کسی غیر ملک کے حکام یا کسی بیگانہ سیاسی جماعت کے سرکردے ہوں، اور تو اور، جب ملک کے ایک حصے میں یتیموں کے سر ان کے خاندانوں کے لئے بھجوائے جانے لگے تو ان میں سے بعض نے پڑوسی ملک کی درسگاہوں میں تقریریں کرکے شیعوں کو برابر کا مجرم قرار دیا اور اس عجیب و غریب لڑائی کو قبائلی لڑائی قرار دیا ـ جبکہ اس لڑائی میں دنیا کے کم از کم تین براعظموں کے دہشت گرد شامل تھے اور وہ پاکستان میں مقاومت کا سر کچلنا چاہتے ہیں ـ یا پھر کہا گیا کہ وہاں تو دونوں فریق ایک دوسرے کے افراد کو پکڑ کر ذبح کررہے ہیں اور دو منٹوں میں ان کا قصہ ختم کرکے باقی سیاسی موضوعات پر تقاریر جھاڑنے لگے اور عجب یہ کہ یہ سب ان یتیموں کے باپ بننے کے دعوے بھی کررہے ہیں اور کوئی شہید کا جانشین بنا ہوا ہے تو کوئی ان کا متبادل۔
مظلومیت کی انتہا ہے شہید مظلوم علامہ سید عارف حسین الحسینی کی؛ شہید کو عوام بھولتے نہیں اور جانشین اور متبادل حضرات یا ان کی راہ پر چلنے کے مدعی یا ان کے مخالفین جو آپس میں بھی ماشاءاللہ آپس میں بھی شیر و شکر بننے سے عاجز ہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے چھری اور گاجر کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک بات پر متفق نظر آرہے ہیں "شہید قائد کا بھاری سایہ ہٹا دو"۔
جی ہاں! شہید کا سایہ جو ملت کے سر پر ابھی تک محسوس ہورہا ہے اور ان حضرات پر بہت بھاری ہے اور اس سائے سے جان چھڑانے کے چکر جاری ہیں۔ یہ مظلومیت کی انتہا ہے۔ لیکن ملت آج بھی قائد شہید کو اپنا قائد مان رہی ہے اور آج بھی چاہتی ہے کہ پلٹ آئے وہ فرستادہ لیکن عالم فطرت میں ایسا ہوتا نہیں اور جو مدعی ہیں وہ ویسے ہیں نہیں، جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ جب فرستادہ چلا جائے تو ملت اس کا متبادل تلاش کرے، تو کیا ہے کوئی جو میدان میں آئے؟
دعوت اتحاد ماشاء اللہ بہت اچھی ہے، لیکن ہمارے پانچ چھ مکاتب کے سرکردگان ماشاء اللہ دوسروں سے اتحاد کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں اور اپنوں سے صرف زبانی کلامی کہتے ہیں کہ اوئے متحد ہوجاؤ لیکن خود ایسے اتحاد کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں، سید شہید کی مظلومیت کی انتہا ہے۔
عجیب قاعدے ہیں فطرت کے کہ جو ملت ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہو اس سے اتحاد کے بارے میں کوئی سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کیا کرتا بس کچھ جماعتوں کو اپنے کام کے لئے استعمال کریں گے اور آگے خیریت ہی ہے. کمزورں سے اتحاد کا تصور ہی غلط ہے۔ اتحاد میں تو کچھ مفادات سے گذرنا پڑتا ہے لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ باہمی اتحاد کے داعی دوسروں کو اپنی
قیادت میں متحد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں!!! کیا شہید نے ہمارے لئے یہی ورثہ چھوڑا تھا؟
آیت اللہ سید محمد حسینی بہشتی شہید ہوئے تو امام نے فرمایا: بہشتی مظلوم جیئے اور مظلوم مرے۔
لیکن ہمارے قائد مظلوم جیئے، [دو سال قیادت کے بعد کسی نے پوچھا کہ آپ نے کیا کیا اس عرصے میں؟ تو فرمایا: میں اس عرصے میں صرف یہی ثابت کرسکا کہ "میں شیعہ ہوں"۔] اور مظلوم مرے اور مظلوم دفن ہوئے اور مظلوم رہے اور ان کی مظلومیت کے 30 سال پورے ہوئے۔
مگر ہاں! ان کی مظلومیت پر رونے دھونے کے بجائے آؤ اپنی مظلومیت پر روئیں، ایسی مظلومیت جو ہم نے خود ہی اختیار کررکھی ہے، شاید ہم تو مظلوم ہی نہیں ہیں بلکہ منظلم اور ظلم پرور اور ظلم پذیر ہیں۔ ہم بےحسی کے مرے ہوئے ہیں۔ شہید تو فائز ہوئے قرب رب کی منزل پر، دیکھو ہماری کیا صورت حال ہے، کتنی آسانی سے مار کھاتے ہیں اپنوں سے بھی اور پرایوں سے بھی؟
فرستادہ آیا، اتمام حجت کی، بے حسی کی ماری ملت کے درمیان سے اٹھا، بے حسی بڑھ گئی اور آج ہم کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اعتقادی لحاظ سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی، ہزاروں شہیدوں کے وارث بن کے شہیدوں کی یاد تک سے جان چھڑا رہے ہیں اور جہاں اختیاری شہادت ہو جہاں🌹 دفاع حریم و حرم🌹 ہو تو مخالفت کو عقل و دانش کا درجہ دیتے ہیں؛😔 اندر بھی بے حس، باہر بھی بےحس۔ لگتا ہے ہمیں اپنی عقل کی موت پر زیادہ رونا چاہئے،
جس کی میت آج ہمارے کندھوں پر ہے وہ ہماری عقل ہے۔
۔۔۔۔۔
بقلم: ابو اسد
نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.comآپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔