سویڈن:مسلم خاتون نے ہاتھ نہ ملانے پر امتیازی سلوک کا مقدمہ جیت لیا
سویڈن کی مسلم خاتون نے ہاتھ نہ ملانے پر متوقع ملازمت سے انکار کرنے والی کمپنی کے خلاف مقدمہ جیت لیا۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق 24 سالہ مسلم خاتون فرح الحاجہ نے مترجم کی ملازمت کے انٹرویو لینے والے شخص سے مذہبی وجوہات کی بنا پر ہاتھ ملانے سے انکار کردیا تھا اور اپنا ہاتھ سینے پر رکھ کر انٹرویو لینے والے کے سلام کا جواب دیا تھا۔
فرح کے ہاتھ ملانے سے انکار پر متعلقہ کمپنی نے انٹرویو ختم کردیا تھا جس کے خلاف انہوں نے مقدمہ درج کیا تھا۔
سویڈن کی لیبر کورٹ نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کمپنی کو خاتون کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے پر انہیں 40 ہزار کرونے (4 ہزار 350 ڈالر) ہرجانے کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ بعض مسلمان اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ مخالف جنس سے ہاتھ ملانے سے گریز کرتے ہیں، تاہم یورپی ممالک میں ہاتھ ملانا ایک روایت ہے۔
امتیازی سلوک کے خلاف موجود قوانین کمپنیوں اور عوامی اداروں کو کسی کی جنس کی بنیاد پر اس سے مختلف رویہ روا رکھنے سے روکتے ہیں۔
فرح الحاجہ کے آبائی علاقے اپسالہ میں واقع مترجم کمپنی نے کیس کی سماعت کے دوران اپنے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عملے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مرد اور خواتین کے ساتھ یکساں سلوک کرے، اس لیے عملے کے کسی رکن کو یہ اجازت نہیں کہ وہ جنس کی بنیاد پر ہاتھ ملانے سے انکار کرے۔
سویڈن کے محتسب ادارے نے فرح کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ فرح کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے مرد و خواتین دونوں سے ملتے وقت اپنا ہاتھ سینے پر رکھا۔
سویڈن کی لیبر کورٹ نے کمپنی کی جانب سے دونوں جنس کے ساتھ ایک جیسے سلوک کو انصاف پر مبنی قرار دیا، لیکن اسے صرف ہاتھ ملانے کے مطالبے کی صورت میں ماننے سے انکار کردیا۔
عدالت نے کہا کہ فرح نے مذہبی بنیادوں پر ایسا کیا اور یورپین کنوینشن برائے انسانی حقوق بھی اس کا حق دیتا ہے۔
عدالت نے کمپنی کے اس موقف کو بھی مسترد کردیا کہ مترجم کی حیثیت سے فرح کے ہاتھ نہ ملانے سے بات چیت کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔
مقدمہ کا فیصلہ فرح کے حق میں تو آگیا لیکن فیصلے میں تین جج نے فرح کے حق میں جبکہ دو نے ان کے مخالف فیصلہ دیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’ملک میں مذہبی آزادی کے تحفظ، ملازم کے مفادات اور ایک فرد کے حقوق کے لیے یہ فیصلہ اہم ہے۔‘
اپنے حق میں فیصلہ آنے کے بعد فرح الحاجہ نے 'بی بی سی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ اگر کوئی اقلیت سے تعلق رکھنے کے باوجو صحیح ہے تو اسے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنی بات منوانی چاہیے۔'
خیال رہے کہ یورپ میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
سال 2016 میں ایک اسکول نے خاتون ٹیچر سے ہاتھ ملانے سے انکار پر دو مسلمان لڑکوں کو اسکول سے نکال دیا تھا۔
اسی سال اپریل میں الجزائر سے تعلق رکھنے والی خاتون کو شہریت ملنے سے متعلق تقریب میں مرد سے ہاتھ ملانے سے انکار کی وجہ سے شہریت نہیں دی گئی تھی