تحریک انصاف کے عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب
لاہور: تحریک انصاف کے سردار عثمان بزدار پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کی زیرصدارت اجلاس کے دوران نئے قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس کے دوران تحریک انصاف کے عثمان بزدار نے 189 جب کہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز نے 159 ووٹ حاصل کیے۔
وزیراعلیٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے بجائے اراکین کو اسپیکر کے دائیں اور بائیں جانب جمع ہو کر ان کی گنتی کے عمل سے کیا گیا تاہم پیپلز پارٹی نے قائد ایوان کے انتخاب کے عمل کے دوران حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اسپیکر اسمبلی نے عثمان بزدار کو ووٹ دینے والے اراکین کو اسمبلی ہال کے دائیں جانب اور حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے اراکین کو بائیں جانب لابی میں جمع ہونے کی ہدایت کی جس کے بعد ہال کے دروازے بند کرادیے گئے جب کہ اسپیکر نے ہدایت کی کہ جب تک اراکین کی گنتی مکمل نہیں ہوتی کوئی رکن باہر نہیں جائے گا۔
ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر نے تحریک انصاف کے امیدوار عثمان بزدار کی کامیابی کا اعلان کیا۔
اسمبلی اجلاس کے دوران (ن) لیگ کے اراکین اسپیکر کی ڈائس کے سامنے جمع ہوئے اور شدید نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
نومنتخب وزیراعلیٰ کا ایوان میں اظہار خیال
نومنتخب وزیراعلیٰ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور تمام ممبران کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ان پر اعتماد کیا اور خاص طور پر اپوزیشن کا مشکور ہوں جو جمہوری عمل کا حصے بنے، اگر اپوزیشن کی جانب سے اچھے مشورے آئیں گے تو ان کا خیرمقدم کریں گے۔
سردار عثمان بزدار نے کہا کہ ان کا میرٹ یہی ہے کہ ان کا تعلق صوبے کے سب سے پسماندہ علاقے سے ہے، وہ اپنی حکومت کے دوران خیبرپختونخوا کی طرز پر پنجاب پولیس کو بھی بہتر کریں گے، اداروں کو مضبوط کریں گے، ہر جگہ پر کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور اسٹیٹس کو کو بھرپور طرح سے توڑنے کی کوشش کریں گے۔
حمزہ شہباز کا اسمبلی میں اظہار خیال
وزیراعلیٰ کا انتخاب ہارنے والے مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار حمزہ شہباز نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر حکومت صحیح چلے گی تو ہم بھی ٹھیک چلیں گے۔
حمزہ شہباز حکومتی بنچوں کے شور مچانے پر احتجاجاً اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور اسپیکر کی مداخلت کے بعد ایک مرتبہ پھر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے، امید کرتا ہوں آنے والے وقت میں بہتری آئے گی، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچارہی ہیں۔
گستاخانہ خاکوں کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران گستاخانہ خاکوں کے خلاف مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس کے متن کے مطابق ناموس رسالت کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ہالینڈ کے ملعون سیاستدان نے گستاخانہ حرکت کی اس لیے وفاقی حکومت مسلم ممالک سے رابطہ کر کے ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کرے۔
نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب کون ہیں ؟
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے سے ہے، انہوں نے عملی سیاست کا آغاز 2001 کے بلدیاتی انتخابات سے کیا۔
سردار عثمان بزدار یکم مئی 1969 کو ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے کے گاوں بارتھی میں پیدا ہوئے ، انہوں نے ابتدائی تعلیم بارتھی میں حاصل کی ، تونسہ سے میٹرک اور ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔
سردار عثمان کی 5 بہنیں اور 5 بھائی ہیں اور بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں، ان کے والد سردار فتح محمد خان بزدار ستر کی دہائی میں سرکاری اسکول میں گریڈ 14 کے ٹیچر تھے ۔ تاہم بعد میں ملازمت سے مستعفی ہو کر سیاست میں آئے اور تین مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔
عثمان بزدار سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ق) کے پلیٹ فارم سے دو مرتبہ ٹرائبل ایریا کے تحصیل ناظم رہ چکے ہیں، 2013 میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا لیکن ہار گئے۔
حالیہ الیکشن سے قبل وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ پی پی 286 سے 26 ہزار 8 سو 97 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ۔
نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب کا آبائی علاقہ بارتھی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے جہاں نہ بجلی ہے، نہ پختہ سڑک اور نہ کوئی کالج، ڈی جی خان کے قبائلی علاقے زین اور بغل چھر میں یورینیم کے بیشتر ذخائر ان کی ملکیتی زمین سے نکلے جس سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔
پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم
تحریک انصاف نے 119 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، 29 آزاد اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، خواتین کی مخصوص 33 اور اقلیت کی 4 نشستیں حاصل کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 179 ہوگئی ہے۔
مسلم لیگ ن نے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی 129 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، ایک آزاد رکن ان کے ساتھ شامل ہوا، خواتین کی 30 اور 4 اقلیتی نشستیں ملنے کے بعد ن لیگ کے اراکین کی تعداد 164 ہو گئی۔
مسلم لیگ ق نے 7 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ایک آزاد رکن کے شامل ہونے کے بعد ان کے اراکین کی تعداد 8 ہو گئی اور خواتین کی دو مخصوص نشستیں ملنے کے بعد یہ تعداد 10 ہو گئی۔
پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 6 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور خواتین کی ایک نشست ملنے کے بعد ان کی تعداد 7 ہو گئی۔
پنجاب اسمبلی سے ایک آزاد امیدوار پاکستان راہ حق پارٹی میں شامل ہوا جب کہ 4 آزاد اراکین کسی کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔
پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں میں انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ تین حلقوں کے نتائج زیر التواء ہیں۔