تحریر | قربانی،اللہ کے قرب کا ذریعہ،فلسفہ اور اس کے مضمرات
عید الاضحی کے روز اولاد آدم کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون ذمین پر گرنے سے پہلے رب کریم کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے اس لیئے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔
یہ ارشاد گرامی وعید سمجھنا چاہیے کہ جو شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نا آئے نیز فرمایا کہ جو روپیہ عید کے دن قربانی پر خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں ۔گویا قربانی ہر تونگر ،آزاد مقیم مسلمان پر شرعاًواجب ہے ۔قربانی کی ساری تحریک کے پیچھے جو فلاسفی کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ اخلاص ،روحانیت ،تقوی،ایثار اور مجاہدانہ کردار کی تیاری کو یقینی بنایا جا سکے ۔اسی لیے اللہ تعالی کی نظر میں اس قربانی کی کوئی اہمیت نہیں جس کے پیچھے تقوی کے جذبات نا ہوں۔بلکہ خدا کے دربار میں تو وہی عمل مقبول ہے جس کا محرک تقوی ہو اور مقصود رضائے الہی۔رضائے الہی کے پیش نظرقربانی کرنے والا گوہر مراد کو پا لیتا ہے کیوں کہ حضرت ابراہیمؑ کا مقصود و مدعا بھی یہی تھا ۔اسلام دین فطرت ہے اور جملہ اسلامی احکام انسان کے لیے ظاہر و باطن ،روح و جسم ہر اعتبار سے بہتری اور کامیابی کی ضمانت ہیں ۔دیگر عبادات کی طرح اسلام نے قربانی کو صاحب نصاب مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ۔جبکہ اسلام کی تاریخ ہی ایثار و قربانی کی تاریخ ہے ۔کبھی مال کی قربانی ،کبھی وطن کی قربانی ،کبھی انا کی قربانی ،کبھی خواہشات کی قربانی ،کبھی اولاد اور کبھی اہل و عیال کی قربانی ،کبھی تعلقات و مراسم اور آرام و سکون کی قربانی حتی کہ کبھی جان کی قربانی ،گزشتہ ساڑھے چودہ سو سال سے اہل اسلام کا معمول اور طریقہ رہا ہے ۔کہ کسی دانا نے بالکل درست کہا تھا کہ نظریات کے لیے قربانی نہ دی جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔انسانی تاریخ میں سب سے پہلی قربانی حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے کی ۔ عید الاضح کے موقع پر جانوروں کی قربانی در حقیقت اس اخلاص للہیت اور جزبہ ایثار کو پروان چڑھانے کی ایک کوشش ہے ۔ریہرسل ہے کاوش ہے جا ایک مسلمان سے اسلام تقاضا کرتا ہے ورنہ اللہ تعلی کو قربانی کا گوشت اور خون ہر گز نہیں پہنچتا ۔گویا قرآن کریم میں اللہ تعلی ارشاد فرماتا ہے ۔ًکہ اللہ کو ہر گز نا انکے خون پہنچتے ہیں نا انکے گوشتً ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے ۔ارشاد کی تعمیل میں جانور ذبح کرنے والے کو دنیا میں نفع اور آخرت میں کامیابی میں اجر و ثواب اللہ تعلی کی بارگاہ سے عطا ہوگا ۔اسی طرح ارشاد الہی ہے کہ تم تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو ۔ابن ماجہ نے حضرت ذید بن ارقمؓ کی کی روایت نقل کی ہے کہ بارگاہ رسالت میں صحابہ حاضر تھے انہوں نے پوچھا یا رسول اللہﷺیہ قربانیاں کیا ہیں ۔حضور سید عالم نور مجسم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاب حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہیں ۔ پھر عرض کیا گیا ان قربانیوں کے کرنے سے ہمیں کیا نفع ہوگا ۔آپﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی ۔پھر سوال ہوا کہ اگر کوئی اون والا جانور قربانی کرے تو اس کے لیے کیا اجر ہے ۔رحمت کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اون کے ایک ایک روئیں اور ایک ایک بال کے بدلے نیکی ملے گی ۔اللہ اکبر ۔۔۔۔ ام المومنین حضرا سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر امن و رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی سے نفسا تی خواہشات پر مکمل کنٹرول کرنے کا درس بھی ملتا ہے اور حوصلہ بھی۔قربانی اللہ تعلی کے دو پیارے پیحمبروں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ مقبول بارگاہ الہی عمل کی یاد کو تاذہ رکھنے کا زریعہ اور وسیلہ ہے ۔ایک طرف اسلاف کی یادگاروں کے تحفظ کی طرف اشارہ ہے تو دوسری طرف اللہ تعلی کی رضا کو ماں باپ ،اولاد ،وطن ہر شے کی محبت پر فوقیت دینے کا درس ہے۔نیز جانوروں کو اللہ تعلی کی رضا کے لیے ذبح کرنے سے مسلمان کے اندر حوصلہ ،جرات اور حاک و خون سے مناسبت پیسا ہوتی ہے دوسرے بے نوا اوع غریب لوگوں کی امداد و نصرت کا موقع ملتا ہے اور مسلم برادری جسد واحد کی طرح متحد ہو کر خوشی مناتی ہے ۔
قربانی سے انسان کو روحانی طور پر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ایثار اختیار کرتا ہے اور ہوس کو خیر باد کہتا ہے ۔جس سے نور ایمان اور معرفت الہی نصیب ہعتی ہے ۔اللہ ہمیں اپنی رضا کے لیے قربانی کی توفیق عطا فرمائے آمین۔قربانی بار گاہ الہی کا مقبول و محبوب عمل ہے لیکن یہ عمل خلوص و تقوی کے ساتھ مشروط ہے ۔قربانی کا معنی اللہ پاک کے قرب کے لیے جان نثاری ہے لیکن اصطلاحی طور پر قربانی کا لفظ عید الضح کے موقع پر ارشاد خداوندی کی تعمیل میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر قربانی کا ذکر وارد ہوا ہے ۔چنانچہ اللہ تعلی ارشاد فرماتا ہےً تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کاً اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو ،پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجوً جو میسر آئے تو اپنے سر نا منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نا پہنچ جائےً آپ ﷺنے قربانی کے وقت اپنی پیاری بیٹی سیدہ النساء العالمین زہرا فاطمہ بتول،خاتون جنتؓ کو فرمایاکہ اے فاطمہ اپنی قربانی کے پاس کھڑی ہو جاؤ کیوں کہ خون کا پہلا قطرہ گرنے سے قبل ہی انسان کے سانقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ًسیدہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ صرف اہل بیت کے لیے ارشاد ہے یا ساری امت کے لیے ۔۔ فرمایا ہمارے اہل بیت کے لیے بھی یہی حکم ہے وہ چیز جو اللہ تعلی کے قرب کا زریعہ ہو اسے قربانی کہتے ہیں ۔چاہے وہ جانور ذبح کیا جائے یا ویسے ہی صدقہ کیا جائے ۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔زندگی کے ہر موڑ پر پیغمبر رحمت ﷺ نے اس گناہگار امت کو یاد فرمایا ،غریبوں اور بے سہارا امتیوں کی طرف سے آپﷺ نے خود ہی قربانی فرمائی۔اب خوب غور فرمائیے کی نبیﷺ اپنی امت کو اس قدر یاد فرمائے اور اسکی فوز و فلاح کے لیے فکر مند رہے ۔حضور اکرمﷺ حضۃالوداع کے موقع پر اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی دی (ابن ماجہ) وسال نبیﷺ کے بعد امیر المومنین سیدنا علی المرتضیؓ ہر سال دو دنبے ذبح کرتے تھے ایک اپنی طرف سے اور دوسرا حضور ﷺ کی طرف سے اور فرماتے تھے کہ مجھے حضور ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ اے علیؓ میرے بعد میری طرف سے بھی قربانی کرنا ۔(ابو داوود) اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص اگر چاہے تو کسی دوسرے صاحب ایمان مسلمان کی طرف سے بھی قربانی کر سکتا ہے چاہے وہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو ۔دونوں صورتوں میں اللہ تعلی اسے ثواب عطا فرماتا ہے ۔اللہ تعلی ہمیں بھی اس عمل کی توفیق بخشے ۔
قربانی ہر مسلمان پر واجب ہے جو صاحب نصاب مقیم اور آزاد ہو قربانی ہر سال دینا ضروری ہے اور خلوص نیت اسکی پہلی شرط ہے ۔گوشت کھانے کا ارادہ ،شہرت اور ناموری کی خواہش اسکے اجر و ثواب کو تباہ و برباد کر دیتی ہے محض رضائے رب کا حصول اور سید عالم ﷺ کی سنت کا احیا اور احکام شریعی کا اتباع مقصود ہونا چاہیے ۔سید عالم ﷺ کی خدمت میں سوال کیا گیا کہ اے اللہ تعلی کے محبوبﷺ اگر کوئی شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ کیا کرے ۔فرمایا کہ وہ نماز عید کے بعد اپنے گھر میں اس طرح دو نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد تین مرتبہ سورہ ء کوثر پڑھے اللہ پاک اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص قربانی کی طاقت نہیں رکھتا وہ ذوالحج کا چاند دیکھنے کے بعد نہ تو حجامت بنوائے اور نا ہی ناخن کٹوائے بلکہ عید کے روز(10 ذوالحج) کو نماز عید کے بعد حجامت بنوا لے اور ناخن کٹوا لے اللہ تعلی اس کو قربانی کا ثواب عطا کر دیں گے ۔خلاصہء کلام یہ ہے کہ قربانی کا اصل مدعا مسلمان کے اندر جذبہ ء ایثار اجاگر کرنا اور اللہ کی رضا کے لیے ہر شے قربان کرنے کا جزبہ پیدا کرنا ہے ۔یہ ہی اسلام کا حقیقی منشاء ہے۔اللہ تعلی امت مسلمہ کو اس اعلی ذوق سے سرشار فرمائے آمین ثم آمین۔قربانی دینے والے کا اپنے ہاتھ سے قربانی افضل ہے ۔اگر خود جانور ذبح نہ کر سکتا ہو تو دوسرا مسلمان ذبح کر سکتا ہے ۔مگر اجازت ضروری ہے ۔اور سنت یہ ہے کہ اپنے سامنے قربانی کروائے بھوکا پیاسا جانور ذبح نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے سامنے چھری تیز کی جائے ۔جب تک ٹھنڈا نہ ہو جائے کھال نہ تاری جائے ۔جج67جانوار کو قبلہ رو پہلو لیٹائیں اور داہنہ پاؤں اس کے شانے پر رکھیں،ارشادٍالہی ہےً اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر حضرت برہؓسے روایت ہے کہ کہ آقائے دو جہاں نے فرمایا کہ عید کے دن نماز کے بعد سب سے پہلا کام قربانی ہے ۔ًجس نے نماز کے بعد قربانی کی اس نے ہماری سنت کو پا لیاً جن آبادیوں میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں جائز ہیں وہاں عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی تو پھر اس کو دوبارہ کرنا ہوگی اور جہاں نماز جمہ اور عیدین نہیں پڑھی جاتی وہاں دسویں ذوالحج صبح صادق کے بعد قربانی ہو سکتی ہے ۔بکراہ،بکری ایک ہی سال کے ہونا ضروری ہے اس کے ایک دن بھی کم ہوگا تو قربانی کے قابل نہیں۔بھیڑ اور دنبہ اتنا موٹا تازہ ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم تو وہ بھی جائز ہے ۔گائے بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ان عمروں سے کم قربانی کے جانور قربانی کے اہل نہیں ہیں ۔ اسی طرح لنگڑے ،کانے یا ایسے مریض یا لاغر جانور کی قربانی بھی جائز نہیں ہے ۔جو قربان گاہ تک نہ جا سکے ۔قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا جائز نہیں نہ ہی با ل کاٹنا ۔اگر ایسا ہو تو دودھ ،بال یا اسکی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے ۔افضل یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں ۔ایک اہل و اعیال کے لیے ،دوسرا عزیز و اقارب اور احباب کے لیے ہو اور تیسرا حصہ فقرا و مساکین میں تقسیم کر دیا جائے۔قربانی کا گوشت بیچنا جائز نہیں۔قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا اس طرح جائز ہے کہ مصلہ یا ڈول بنالیا جائے مگر فروخت کر کے پیسے صدقہ کر دینا واجب ہے ۔اور قربانی کی کھال کو صدقے کی نیت کیے بغیر بیچنا جائز نہیں۔دینی فلاحی تنظیمیں اور نشرو اشاعت اور اسلام کے ادارے اس کے علاوہ دینی مدارس کے طلبا قربانی کی کھالوں کا بہترین مصرف ہیں کیوں کہ اس میں احیائے علم دین خدمت بھی ہے ۔اور مدرسین کی خدمت بھی ہو جاتی ہے ۔آجکل قربانی محض ایک اسم بن کر رہ گئی ہے اللہ تعلی اس کی اصل روح تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔قربانی کی اصل روح تقوی اور پرہیز گاری ہے ۔ قربانی کرنے والا شخص درحقیقت اپنی جان کے فدیئے اور گناہوں کے کفارے میں جانور کی قربانی پیش کرتا ہے ۔جانور کا ہر عضو قربانی کرنے والے کے عضو و بدن کا کفارہ بنتا ہے ۔اس لیے قربانی کرنے والے کو ناخن اور بال کٹوانے کی اجازت نہیں ہے ۔قربانی کی اہمیت اور اجر و ثواب کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضورﷺ نے قربانی نہ کرنے والے کو بطور تنبیہ فرمایا ہے کہ وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئےً اسلامی احکامات کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ ہم اگر قربانی کے ساتھ ساتھ طبی لحاظ سے بھی اپنی صحت کا خیال رکھیں تو نہ صرف ہم صحت مند زندگی گزاریں گے بلکہ اچھی قدروں کو بھی فروغ دیں گے۔
آجکل گانگو وائرس کا بھی خطرہ ہے اس وائرس سے بچاؤ کے لیے صفائی کا خیا ل رکھنا ،مویشی کی خریداری کے وقت پورے بازووں والی قمیض پہن کر جانا چاہیے اور ہاتھ پاؤں پر جراثیم کش لوشن لگا کر جانا چاہیے تاکہ کانگو وائرس سے بچا جا سکے۔یہ وائرس جانواروں میں پائے جانے والے چچڑ انسان کو کاٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اس لیے جانور خریدنے کے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
اگر مویشیوں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے انہیں نہلایا جائے ۔ان کے باڑے صاف رکھے جائیں اور سپرے کروایا جائے تو اس مہلک وائرس سے بچاؤ ممکن ہے ۔اس کے علاوہ قربانی کے بعد ہمیں اپنے گھروں محلوں،گلیاں اور بازاروں کو جانوروں کے باقیات سے پاک رکھنا چایئے تاکہ جراثیم سے حفاظت ممکن ہو۔