تحریر | جنوبی فلپائن میں مسلمانوں کی خودمختار ریاست کا قیام
تحریک اپنے حقوق کے لئے ہو یا کسی اور مثبت سرگرمی کے لئے،چاہے وہ کامیاب ہو یا نہ ہو، دور رس اثرات ضرور مرتب کرتی ہے اور یہی اثرات آگے چل کر ایک نئے محرک کا باعث بنتے ہیں اور وہی تحریک بالآ خر کامیاب ہو جاتی ہے ۔
خاص طورپر آزادی کی تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے کیونکہ اس دوران تحریک کومختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ،غاصب سے ٹکرائو کی وجہ سے بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں ، قربانیاں دینا پڑتی ہیں ، یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے اور بالآخر تحریک مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، بعض اوقات تو اس کے لئے صدیوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔
فلپائن کے درجنوں جزائر میں آباد مورو قبائل سالہا سال سے آزادی اور خودمختاری کے لئے لڑ رہے تھے ، گو ان جزائر پر مختلف ادوار میں علیحدہ علیحدہ سامراجی طاقتوں کا عرصہ دراز سے قبضہ چلا آ رہا تھا مگر وہاں کے رہنے والوں نے کبھی ہار نہ مانی اور اپنے حق کے لئے جدو جہد کرتے رہے ۔ کبھی یہ جدو جہد قلم کے زور پر جاری رہی تو کبھی تلوار اٹھانا پڑی،اور کبھی صرف دل میں ہی الائو سلگا کر اسے جاری رکھا گیا ۔ دنیا سے رخصت ہونے والا ہرمورو اپنی قوم کا درد اپنے وارث کو ضرور سونپ جاتا تھا اور یہی درد وہ محرک تھا جس نے اس بے نام تحریک کو صدیوں تک زندہ رکھا۔
1898ء میں جب فلپائن کو سپین سے آزادی نصیب ہوئی تب مندانائو اور دیگر جزائر پر آباد مورو قبائل کو امید ہو چلی تھی کہ ان کا صدیوں پرانا تشخص بھی بحال ہو جائے گا ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ فلپائن کی آزادی کے باوجودسپین اور امریکا نے اسے سرکاری طور پر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکی مداخلت کھلے عام موجود رہی اور عملاً اس کا ہی قبضہ رہا ، یوں فلپائن کو اپنے حق کے لئے پھر سے جدوجہد کرنا پڑی جس میں مورو قبائل سب سے آگے تھے ۔ بالآ خر 1946ء میں امریکا نے فلپائن کو مکمل آزادی دیدی مگر مورو قبائل کی قسمت پھر بھی نہ جاگی اور وہ ہنوز پہلے جیسے حالات سے ہی دوچا ر رہے۔
جب فلپائنی حکومت نے ظلم کی انتہا کر دی اور ان کے مسلم تشخص کا بھی خیال نہ رکھا تو مورو مسلمانوں نے حکومت کے خلا ف مسلح جدوجہد کا اعلان کر دیا۔ یوں 70ء میں مورونیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی گئی تاکہ مورو قبائل کو حکومت کے خلاف منظم کیا جا سکے ۔ مسلم اکثریت والے جزائر (جہاں پندرھویں صدی سے قبل مسلم ریاستیں قائم تھیں)بالخصوص مندانائو ان کا مرکز ٹھہرا اور دیگر جزائر بھی وہیں سے رہنمائی لینے لگے۔
فلپائنی حکومت نے اسے بغاوت قرار دیتے ہوئے فوج کشی شروع کردی یوں احتجاجی جدو جہد باقاعدہ مسلح جدوجہد میں تبدیل ہو گئی ۔ دیگر بہت سے چھوٹے گروہوں نے بھی مورو نیشنل لبریشن فرنٹ کا ساتھ دیا اور نوجوانوں کو باقاعدہ بھرتی کر کے گوریلا جنگ کی تربیت دی جانے لگی ۔ تب کشت و خون کا وہ بازار گرم ہوا جسے تاریخ خونی ٹکرائو کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ 78ء میں ایم این ایل ایف کے نام میں تبدیلی کر کے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ رکھ دیا گیا ، اب تحریک کا مطمع نظر خود مختاری کے ساتھ ساتھ اپنے اسلامی تشخص کو بھی بچانا تھا ۔
96ء تک خانہ جنگی کا سلسلہ جاری رہا، تب مورو اسلامک فرنٹ اورفلپائن کی حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور جزیرہ مندانائو کو خودمختاری دینے کا معاہد کیا گیا مگر بہت سے آزادی پسندگروپوں کی طرف سے اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا جس کی وجہ سے معاہد ہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا اور فلپائنی فوج اور مورو قبائل میں لڑائی بدستور جاری رہی اور چالیس سالوں میںایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد مارے گئے،تاہم پہلی مرتبہ مذاکرات کی میز پر اکٹھا ہونے کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور وقفے وقفے سے مذاکرات ہوتے رہے جس کے لئے پڑوسی ملک ملائشیا نے اہم کردار ادا کیا۔
بالآ خر ملائشیا کی کوششیں بار آور ہوئیں اور دونوں فریق امن معاہدہ کے لئے راضی ہو گئے اور15اکتوبر 2012ء کومنیلامیں امن معاہدہ طے پا گیا جس پر فلپائن کے نمائندے مروک لینن اور ایم آئی ایل ایف کے مذاکرات کار اقبال نے دستخط کئے ، اس موقع پر مذاکرات کے لئے اہم کردار ادا کرنے والے ملائشین عبدالغفار ،ایم آئی ایل ایف کے چیف حاجی مراد ابراہیم ،ملائشین وزیر اعظم نجیب رزاق اور فلپائن کے صدر اکینو بھی موجود تھے۔معاہدے میں طے پایا کہ خودمختار بنگسا مورو کے دستور اور قانون کی تیاری کے لئے پندرہ رکنی کمیشن قائم کیا جائے گا جس کے تحت بعد میں ریفرنڈم کرایا جائے گا تاکہ عوام کے رجحانات کا جائزہ لیا جا سکے۔
علاقے کی خود مختاری کا عمل 2016ء تک مکمل ہو گااس دوران دستور کے تحت مختلف اختیارات منتقل کئے جائیں گے۔وسائل اور دولت میں شراکت کا فارمولہ بھی طے کیا جا ئے گا۔سب سے اہم بات یہ کہ علاقے میں امن کے لئے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے دستوں کو بتدریج غیر مسلح کیا جائے گا ۔ جدوجہد کرنے والے مسلح گروپوں کی اکثریت نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے ،فلپائنی حکام کا کہنا ہے کہ جن چند گروپوں کی طرف سے حمایت حاصل نہیں کی جا سکی انھیں بھی ہر طریقے سے راضی کر لیا جائے گا کیونکہ ان گروپوں میں بھی اس معاہدے کے حامی موجود ہیں ۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے جہاں بنگسا مورو کو خودمختاری ملے گی وہیں علاقے میں خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا کیونکہ جنوبی فلپائن میں سالہا سال سے جاری خون ریزی کی وجہ سے معاشی بہتری نہ ہونے کے برابر تھی ۔کچھ تجزیہ نگاروں نے ان خدشات کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر مسلح افراد ہتھیار ڈالنے پر راضی نہ ہوئے تو امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
موروکون ہیں؟
بنگسا مورو کی اصطلاح فلپائن اور ملائشیا کے اردگرد پانے جانے والے سولو جزائر کے مجموعے،مندانائو اور پلوان کے جزائر کے چند حصوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔ اصل میں یہ اصطلاح مالے زبان کے لفظ بنگسا سے لی گئی ہے جس کے معنی ہیں قوم یا عوام ،جبکہ مورو سپینش زبان کے لفظ مور سے لیا گیا ہے جو مسلمانوں کے دوبارہ عروج کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ لفظ مورو قبائل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کے بڑے قبائل میگندانان،مارا نائو اور تاسگ ہیں اور یہی قبائل عوام میں زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں ۔
بنگسامورو کے قبائل بیسلان ،کوٹا بیٹو ،دیوائو دل سور،لینائو دل نارتے ،لینائو دل سور ،میگندانائو،سارنجنی،جنوبی کوٹا بیٹو،سلطان قدرت،سولو،توائی توائی ،زیمبانگا،دل سور ،زیمبانگادل نارتے ،زیمبانگا سبوگے کے صدیوں اور کوٹا بیٹو،دیپی ٹن، دی پولوگ،جنرل سینتوز،الیجن،ماروی ،پیگا دین،پورتو پنسا اور زیمبانگا جیسے اہم شہروں میں آباد ہیں۔
اس کے علاوہ شمالی بورینو بشمول صباح،لیبان کے علاقے اور سیپی دان اور لی جی ٹن کے جزائر میں بھی مورو افراد کثرت سے آباد ہیں تاہم یہ علاقے پہلے ہی صبا تنازع کی وجہ سے متنازعہ قرار دئیے جا چکے ہیں ۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو میکٹن،منیلا اورکیوٹ کے جزائربھی بنگسا مورو کا حصہ قرار دئیے جا سکتے ہیں کیونکہ یہ جزائر بھی دو، تین سو سال قبل مسلمانوں کے زیر حکومت رہے۔
پندرھویں صدی میں ان جزائر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اورمسلمان بادشاہ حکمران تھے ۔1570ء میںجب سامراجی نظام نے اس علاقے میں اپنے پنجے گاڑھے تویہ علاقے بڑی طاقتوں کے زیر تسلط آ گئے، سپین ، فرانس اورامریکہ نے ان جزائر پر حکمرانی کی ۔ سپین میں بھی چند قبائل کے لئے مور کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس لئے مورو قبائل کے لوگ انھیں اپنے نسلی دشمن تصور کرتے تھے اور تب سے انھوں نے ان کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔
ملائشیا اور فلپائن کے ارد گرد بحرالکاہل کے سمندر میں سینکڑوںکی تعداد میں جزائر موجود ہیں جہاں یہ مورو قبائل بستے ہیںجن میں سے کچھ ملائشیا کا بھی حصہ ہیں۔ جب یہ جزائر فلپائن کے قبضے میں چلے گئے اور اکثریتی عیسائی حکومت نے یہاں اپنی مرضی کے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے مزاحمت کی اس سے قبل امریکہ نے بھی ان جزائر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے۔تب سے مسلم مورو قبائل اپنا الگ تشخص قائم رکھنے کے جدوجہد کر رہے ہیں ۔
یہ جدوجہد اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب1970ء میںمسلم کمیونٹی نے بنگسا مورو لبریشن فرنٹ (BMLO)کے نام سے اپنی تنظیم قائم کی جس کے کرتا دھرتا سلطان راشد لکمین تھے اسی طرح مورو نیشنل لبریشن فرنٹ وجود میں آئی جسے بعد میں مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (MILF)کا نام دیا گیا۔1984ٗ ء میںمورو طلباء نے فلپائن میں مسلمانوں کی سخت مخالفت اور موروقبائل کے خلاف شدید کاروائیوں کے باجود لفظ مورو کو اپنی تنظیموں کے لئے کھلے عام استعمال کرنا شروع کر دیا۔
فلپائن اور مورو قبائل میں مذاکرات کے لئے ملائیشیا کا کردار
مورو قبائل فلپائن کے جن جزائر میں آباد ہیں وہ ایک پٹی کی شکل میں ملائشیا تک چلے گئے ہیں گو وہ اس سے منسلک تو نہیںمگر پھر بھی کافی قریب ہیں۔اس لئے فلپائن اور مورو قبائل میں عرصہ دراز سے جاری جنگ کی وجہ سے ملائشیا کو باہمی تجارت اور دیگر معاملات میں کافی مشکلات کا سامنا تھا ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مورو قبائل چونکہ مسلمان ہیں اور ملائشیا اسلامی ملک ہونے کے ناطے بھی ان سے ہمدردی رکھتا ہے اس لئے ملائشیا کافی عرصہ سے فلپائن اور مورو قبائل میں مفاہمت کے لئے کوشاں رہا ہے ۔ یہ سلسلہ خاص طور پر ملائشیا کے عظیم رہنما مہاتیر محمد کے دور اقتدار میں شروع ہوا ۔ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں دونوں فریقین کو مذاکرات کے لئے آمادہ کیا مگر بہت زیادہ کشیدگی کی وجہ سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل نہ ہو سکا۔
اس کے بعدعبداللہ بداویکے دور میں بھی فلپائن اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا ۔ جبنجیب رزاقملائشیا کے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھی اس مسئلے کے حل کی طرف بھرپور توجہ دی ۔دوسری طرف فلپائن کے صدر اکینو بھی اس مئسلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے ملائیشیا کی کوششیں رنگ لائیں اور امن کا عمل شروع ہوا ۔