ایران میں کانسی کے دورکا گواہ ’’شہر سوختہ‘‘
شہر سوختہ نے قبل مسیح کےچاراَدوار دیکھے ہیں مگر المیہ یہ رہا کہ ہر دور میں اس شہر کی وسعت میں کمی ہوئی ۔ اس شہر کا پہلا دور 2100 سے 2300 قبل مسیح کاہے کانسی کے اس دور میں یہ شہر بلوچستان اور ایران کے صوبے کمران کے درمیان آباد ہوا_
اس شہر کو کس نے آباد کیا، اس حوالے سے تاریخ کے صفحات خاموش ہیں۔ دوسرا دور 2300 سے 2500 ق م کا تھا، اس وقت اس شہر کا مجموعی رقبہ 247.09 ایکڑ تھا۔ تیسرا دور 2500 سے 2800 ق م کا تھا۔ اسی دور میں یہ شہر سمٹ کر 111.19 ایکڑ رقبے تک محدود ہو گیا، بعدازاں 2800 سے 3200 ق م کے دوران اس قدیم شہر کا رقبہ مجموعی طور پر 49.41 ایکڑ تک رہ گیا_
حالانکہ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ 1700 ق م میں اس خطے کے وسیع شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ اس کا سبب شاید شدید ترین قحط سالی رہا ہو، لیکن سندھ کے مدھر لوک گیت، دیومالائی، دل چسپ کہانیاں، رسم و رواج اسی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا تسلسل ہیں۔ دُوسری جانب خانیوال، وہاڑی، لودھراں، مظفرآباد، لیّہ، کوٹ اَدّو، رحیم یار خان، بہاول پور، فیصل آباد اور شیخوپورہ میں بھی سندھ کی تہذیب وتمدن کے اثرات ملتے ہیں۔ اُدھر انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے اضلاع راج کوٹ، احمد آباد، جام نگر، سریندرنگر، بڑوچ، امریلی، پارنگر، کچ، جوناگڑھ، مدیہ شوراشٹر سمیت سندھ میں بھی مجموعی طور پر ٭٭ورثے پر موئن جودڑو کے تہذیبی اثرات ملےت ہیں۔ اس کا تذکرہ معروف کتاب ’’آرکیالوجی آف شوراشٹر‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اسی طرح سندھ کی تہذیب کے آثار افغانستان کے صوبے قندھار کے گوٹھ شاہ مقصود میں بھی ملتے ہیں ،جو قندھار شہر سے محض 55 کلومیٹر کے فاصلے پر اور خشک نغوز ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ 51089 مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ دڑو ہلمند ثافت میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ہلمند ثقافت میں سندھ کا مرکزی کردار رہا ہے۔ اسی ثقافت کا پہلے نمبر پر شمار ہونے والا دڑا ’’شہر سوختہ‘‘ ہے۔ جو سیستان اور بلوچستان کے سنگم پر بہنے والی ندی ذیول سے 57 کلومیٹر، جب کہ ہلمند ندی کے کنارے زاہدان ذیول روڈ سے ملحقہ 373.11 مربع ایکڑ پر اس شہر کے آثار ملتے ہیں۔ شہر سوختہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’’جلا ہوا شہر‘‘ ہے۔
آریاؤں کی سرزمین ایران جسے فارس بھی کہا جاتا تھا، یہ نام اس سلطنت کے حاکم ایرج نے دیا تھا، جو درحقیقت ایران بن افریدان تھا اور فارس میں اس کی اولادیں آباد تھیں، مگر اہل فارس میں اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ سب ہی کیومرث کی نسل سے ہیں، یہی بات باعث شہرت ہے کہ کیومرث دراصل ایراج کا جدِ اَمجد تھا۔ ایران مغربی ایشیا کا بہت بڑا خطّہ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ دُنیا کا 8واں بڑا ملک ہے۔ اس خطّے کی سرحدیں افغانستان، کابل اور پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ ایرانی ثقافتی میراث کی بہت سی قدریں سندھ کی ثقافت و تہذیب سے مشترک ہیں، فلسفہ، زبان و اَدب، تذکرہ، تاریخ، تصوّف، طب کی کتب، فنون لطیفہ، مصوّری، خطّاطی، ہنر نقاشی، دست کاری، معماری فارسی تہذیب کی روشن تصویریں ہیں، لیکن سندھ نے بھی اپنے قدیم رہن سہن، فکر و فلسفے کے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ موسیقی جس کی تاریخ انتہائی قدیم ہے، ماہرین موسیقی، سندھی موسیقی کو نا صرف دُنیا کی قدیم ترین موسیقی میں شمار کرتے ہیں بلکہ اسے چار حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ جن میں پہلا حصہ چین اور جاپان، دُوسرا حصہ برما، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سندھ، جبکہ تیسرا حصہ ایران، ترکی، وسط ایشیا اور عرب ممالک ۔ چوتھا حصہ افریقا و دیگر ممالک پر مشتمل ہے۔ ان سب کا علیحدہ علیحدہ رنگ ہے۔
سندھ نے اپنی موسیقی کو ترتیب دیا تو اس میں موسیقی کے ساز شرنائی، چنگ اور کھماج شامل کیا۔ شہر سوختہ میں موسیقی کے دلدادہ اپنی دُھنوں کے لئے سندھی موسیقی کے ساز بھی مستعمل کرتے تھے۔ یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ مشہور کتاب کلیہ دمنہ سندھ کے راستے پہلے شہر سوختہ یا ایران پہنچی، ایران میں 3200 قبل مسیح کے دوران کانسی کے دور میں آباد ہونے والا شہر سوختہ اپنے نام اور قدامت کے حوالے سے دُنیا بھر کے سیاحوں اور ماہرین آثار قدیمہ کے لئے دل چسپی کا باعث اور اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔
کراچی سے شہر سوختہ 1256 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے ۔شہر تک پہنچنے کے لئے تقریباً 35 گھنٹے درکارہوتے ہیں۔ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران حیدرآباد کے ڈائریکٹر احمد عبداللہ پور کے مطابق، شہر سوختہ یونیسکو میں آثار قدیمہ کی فہرست میں 1456 نمبر پر آتا ہے_