سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
گذشتہ چند عشروں سے ہماری قوم میں تنزلی کے جو آثار نمودار ہوئے ہیں، اردو سے دوری اور اپنی زبان پر شرمندگی بھی ان آثار کا ایک حصہ ہے_اردو زبان ہمارے نصاب کا حصہ تو ہے مگر شاید ہماری توجہ سے سب سے زیادہ محروم ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق،وقت کے ساتھ ساتھ جہاں گورنمنٹ اسکولوں میں مسائل انتہائی درجے تک بڑھے، وہیں ہر گلی محلے میں کھلنے والے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں نے انگریزی کا تو جو برا حال کیا سو کیا، اردو کا تو بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ اور صرف اسکولوں کو ہی قصوروار کیوں ٹہھرائیے، بحیثیت والدین، سرپرست، اور خاندان، ہم نے بھی تو نئی نسل میں انگریزی الفاظ اور بول چال کو پروان چڑھانے اور اردو کو پیچھے رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
آتے جاتے مہمانوں کے سامنے بچوں کو انگریزی میں تلقین و سرزنش کی جاتی ہے تاکہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا رعب پڑے۔ ننھے بچوں کو انگریزی نظمیں گا کر مہمانوں کو سنانے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ بتایا جا سکے کہ بچے کے اسکول میں انگریزی زبان سکھانے پر کتنی توجہ دی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کی نشاندہی سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا ہمارے یہ کہنے سے کہ ہماری نئی نسل کو اپنی زبان پر فخر کرنا چاہیے، سوچ میں تبدیلی آجائے گی؟ ہرگز نہیں! اگر ہمیں واقعی اپنی زبان کو آگے بڑھانا ہے تو ہمیں اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسی راہیں تلاش کرنی ہوں گی جن پر عمل کر کے ہم اسے پروان چڑھا سکیں۔
کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ اچھی انگریزی نہیں بول سکتا؟ کبھی کسی جرمن کو اپنی زبان پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے؟ تو کیوں ہم بڑے فخر سے محفلوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ "My Urdu is really bad" اسی ملک میں پیدا ہونے، پلنے بڑھنے والے، تعلیمی اداروں سے اسی زبان میں تعلیم پانے والے، گھروں میں مکمل اردو (یا کوئی علاقائی مادری زبان) بولنے والے یہ کہتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے؟ املا غلط، تلفظ غلط اور افسوس کی بات یہ کہ اس غلطی کو سدھارنے کے بجائے اس کا فخریہ اعلان! چار جملوں کی بات کے درمیان دو جملوں میں انگریزی الفاظ کا غیر ضروری تڑکا اس بات کا غماز ہے کہ کس طرح ہم اپنی شناخت اور فخر پر سمجھوتے کرتے جا رہے ہیں۔
اردو کو پروان چڑھانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ خود کو انگریزی یا دیگر زبانوں سے دور کر لیا جائے۔ جتنی چاہے زبانیں سیکھیے، سمجھیے، بولیے، پڑھیے، لیکن ساتھ ساتھ اردو کو بھی یاد رکھیں۔ اسے وہ درجہ، وہ مقام دیجیے جو اس کا حق ہے۔ اردو بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ چین اور جاپان کی طرح ہر زبان میں تخلیق کیا گیا جدید اور بہترین ادب، نئی تحقیقات، نئے رجحانات اپنی زبان کے سانچے میں ڈھالیں، تاکہ نئی نسل کو تمام تر معلومات اور علم اپنی زبان میں میسر آسکے۔ اسِ ضمن میں بہت کام ہو بھی رہا ہے، لیکن حکومت اور اردو بورڈ سے زیادہ بحیثیتِ پاکستانی یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو وہ ورثہ منتقل کریں جو غالب، میر، فیض اور فراز نے ہمارے لیے چھوڑا ہے۔
انہیں اس ترکے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپیں جو ہمیں عصمت چغتائی، منٹو، منشی پریم چند، انتظار حسین اور مشتاق احمد یوسفی سے ملاِ ہے۔
ہر گھر میں، روزمرہ بول چال میں، اپنے ابلاغ میں اردو کو اتنی ترویج دیں کہ اردو کی ایک بار پھر بقول مرزا داغ دہلوی دھوم سارے جہاں میں ہو جائے۔