سال 2100 تک ہمالیہ ہندوکش خطے کی 33 فیصد برف پگھل جائے گی، تحقیق


دنیا میں بلند ہوتے درجہ حرارت کے باعث ہمالیہ اور ہندوکش کی تقریباً ایک تہائی برف غائب ہوجائے گی، جس کے نتیجے میں دریاؤں میں طغیانی پیدا ہوجائے گی جو چین سے لے کر بھارت تک اگائی جانے والی فصلوں کے لیے نہایت اہم ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وسیع برفانی تودوں پر مشتمل ہندو کش اور ہمالیہ کا خطہ، جہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو واقع ہیں، انٹارکٹیکا اور آرکیٹک خطے کے بعد تیسرا قطب ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کےحوالے سے مرتب کردہ رپورٹ کی سربراہی کرنے والے فلیپس ویسٹر نے کہا ہے کہ یہ وہ ماحولیاتی بحران ہو جس کے بارے میں کسی نے نہیں سنا۔

انٹرنیشنل سینٹرفار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کے فلپس ویسٹر کا کہنا تھا کہ ’گلوبل وارمنگ 8 ممالک تک پھیلے ہوئے ہمالیہ ہندوکش کے سلسلے میں موجود برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں کو تبدیل کررہی ہے اور ایک صدی میں بہت سی چوٹیوں کو چٹانوں میں تبدیل کرچکی ہے۔

210 ماہرین کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومتیں 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھاتی ہیں تب بھی سال 2100 تک خطے کی ایک تہائی سے زائد برف پگھل جائے گی۔

اور اگر حکومتیں رواں صدی کے دوران گرین ہاؤس گیسز کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوجاتیں ہیں تو دو تہائی برف پگھل جائے گی۔

کھٹمنڈو میں رپورٹ کا اجرا کرنے کے لیے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے فلپس ویسٹر کا مزید کہنا تھا کہ میرے لیے یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سال 1970 سے لے کر اب تک خطے میں برفانی تودوں کی چوڑائی میں کمی آئی ہے اور ان کا رقبہ بھی سکڑ گیا ہے۔

اس ضمن میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی سی آئی ایم او ڈی ایکلابیا شرما کا کہنا تھا کہ اگر ہندو کش ہمالیہ خطے کی تمام برف پگھل گئی تو سطح سمندر ڈیڑھ میٹر تک بلند ہوجائے گی۔

مذکورہ خطہ 3ہزار 5 سو کلومیٹر پر محیط ہے اور پہاڑوں کا یہ سلسلہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

تحقیق کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی جہاں کسان خشک سالی کے دوران برفانی تودوں کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر گزارا کرتے ہیں۔

تقریباً 25 کروڑ افراد اس خطے کے پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دریاؤں میں آنے والی تبدیلیاں ہائیڈروپاور کی پیداوار متاثر ہونے اور زمین اور پہاڑوں کے بنجر ہونے کا سب بن سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں امپیریل کالج آف لندن کے وائٹر بائٹریٹ کا کہنا تھا کہ برفانی تودے کس طرح فصلوں کو متاثر کرسکتے ہیں اس حوالے سے مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔