علامہ امین شہیدی کا دعویٰ درست ثابت ہوگیا، متعدد لاپتا افراد پولیس کے حوالے کردیئے گئے
علامہ امین شہیدی چند روز قبل ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار لاپتا افراد کے خاندانوں سے لاکھوں روپے لے لیکر پولیس کے حوالے کردیتے ہیں، جہاں ان پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ امین شہیدی نے ایک ویڈیو پیغام میں لاپتہ افراد کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی بعض خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بے گناہ شیعہ جوانوں کو گرفتار کرکے کئی مہینوں کے لئے لاپتا کردیتے ہیں جس کے بعد ان جوانوں کے اہل خانہ سے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی رقم لے کرپولیس کے حوالے کردیتے ہیں جہاں ان بے گناہ شہریوں پر من گھڑت اور بنیاد مقدمات بنائے جائے ہیں۔
علامہ امین شہیدی کا تجزیہ مکمل طور پر درست ثابت ہوا ہے کراچی میں ہونے والے دھرنے کے بعد خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے 5 شیعہ جوانوں کو پولیس کے حوالے کرکے بے بنیاد الزامات لگادیئے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) شرقی امیر فاروقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سید مطلوب حسین (روزنامہ جنگ کا رپورٹر)، سید عمران حیدر زیدی، وقار رضا، محمد عباس اور سید محتشم کے خلاف مقدمات کا اندراج کرلیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سید مطلوب حسین پر بیرونِ ملک سے تربیت لینے اور ایک سرکاری ویب سائٹ سے شخصیات کی فہرست ڈاؤن لوڈ کر کے غیر ملکی افراد کو دینے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مطلوب حسین حال ہی میں اس وقت خبروں کی زینت بنے تھے جب ان کے اہلِ خانہ نے کہا تھا کہ انہیں گھر سے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اٹھا کرلے گئے ہیں ، جس پر متعدد میڈیا اداروں نے ان کی پراسرار گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ڈی آئی جی نے دعویٰ کیا کہ خفیہ ایجنسیوں کے مطابق کچھ لاپتہ افراد، جن کے اہلِ خانہ گذشتہ چند روز سے صدر مملکت عارف علوی کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کررہے ہیں، بھی ریاست مخالف کارروائیوں میں ملوث پائے گئے اور پڑوسی ملک اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے حوالے سے ان کی تفتیش جاری ہے۔
ڈی آئی جی نے دعویٰ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ لاپتہ افراد میں شامل کچھ افراد نے ممکنہ طور پر گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوشی اختیار کرلی ہو۔
ڈی آئی جی امیر فاروقی نے دعویٰ کہ سید عمران علی عرف علی 2015 اور 2017 میں پڑوسی ملک گیا تھا جہاں اس نے ’نیشنل گارڈز‘ سے 2 مرتبہ 25 دن کی عسکری اور معلومات اکھٹی کرنے، ہتھیاروں کو استعمال کرنے، نگرانی اور نگرانی سے بچنے اور لوگوں کی ریکی کرنے کی تربیت حاصل کی۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ عمران زیدی کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کی گئیں جس میں سے ایک میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔
محمد عباس کے بارے میں ڈی آئی جی نے بتایا کہ وہ ملیر کے علاقے جعفر طیار کا رہائشی تھا اور عمران گروپ کا سرگرم کارکن تھا اور اس نے بھی تربیت کے ساتھ مختلف افراد کی ریکی کر رکھی تھی، محمد عباس کے خلاف 3 ایف آئی آرز درج کی گئیں ہیں۔
وقار رضا کے بارے میں ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ وہ فیڈرل بی ایریا کا رہائشی اور پیامِ ولایت اسکاؤٹس کا سرگرم رکن تھا اور اپنے ہمراہ شیعہ نوجوانوں کو پڑوسی ملک لے کر جاتا تھا اور پیامِ ولایت اسکاؤٹس کے لیے فنڈز جمع کرنے میں بھی ملوث تھا، وقار رضا کو 2 مقدمات میں نامزد کیا گیا۔
ڈی آئی جی کے مطابق سید محتشم گلستانِ جوہر کے علاقے حسین ہزارہ گوٹھ کا رہائشی تھا اور اس نے پڑوسی ملک سے 2 مرتبہ معلومات اکھٹی کرنے، ہتھیار اور دھماکا خیز مواد استعمال کرنے، نگرانی اور نگرانی سے بچنے اور لوگوں کی پروفائل تیار کر کے ریکی کرنے کی تربیت حاصل کی۔
ڈی آئی جی کے مطابق محتشم نے مطلوب عرف اویس کو گروپ میں شمولیت اور تربیت حاصل کرنے کے لیے پڑوسی ملک جانے پر مائل کیا۔
سلمان فارسی کے رہائشی صحافی مطلوب حسین کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سید محتشم حیدر نے مطلوب کو بھرتی کیا اور اس نے پڑوسی ملک سے 18 روز کی تربیت حاصل کی۔
لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی نمائندگی کرنے والی کمیٹی نے ڈی آئی جی کے تمام تر الزامت کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر ٹارگٹ کلر اور سہولت کار ظاہر کیے گئے، یہ افراد گزشتہ کئی ماہ سے لاپتہ تھے۔
شیعہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا کہںا ہے ڈی آئی جی کا بیان نہایت غیرذمہ دارانہ اور شیعہ دشمنی پر مبنی ہے۔