سانحہ 12 مئی: کئی برس بعد بھی مقتولین کے ورثا انصاف کے منتظر
آج سے تقریبا 12 سال قبل 12 مئی 2007 کے روز جب اس وقت کی وکلا تحریک عروج پر تھی تو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے سیاسی کارکنوں پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دی تھیں۔
تسنیم خبررساں ادارہ: شہر میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے انہیں کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس روز کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران وکلا سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے، جن کے ورثا تا حال اپنے پیاروں کے قتل پر انصاف کے منتظر ہیں۔
یہ سانحہ سابق جنرل اور صدر پرویز مشرف کے دور میں پیش آیا تھا۔
گذشتہ سال کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ 12 مئی کے ایک اور مقدمے میں متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔
اس سے قبل بھی سانحہ 12 مئی کے 2 مقدمات میں میئر کراچی وسیم اختر اور دیگر پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ عدالت مقدمے کے 16 مفرور ملزمان کو پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے، ان ملزمان کے خلاف کراچی کے ایئرپورٹ تھانے میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ کراچی کے مختلف تھانوں میں سانحہ 12 مئی کے 7 مقدمات درج ہیں۔
ستمبر 2018 میں سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمے میں تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں سانحہ 12 مئی کے حوالے سے 65 کیسز کی تحقیقات کروانے کا حکم دیا تھا اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے ایک سینئر جج مقرر کرنے کی درخواست کی تھی۔
عدالت نے یہ حکم اقبال کاظم کی درخواست پر دیا تھا جنہوں نے درخواست میں معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔