حضرت امام صادق علیہ السلام کی علمی خدمات
تاریخ تشییع اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت ختمی مرتبت کے زمانے سے غبیت کبری تک آئمہ معصومین کی رہبریت، قیادت اور حکمت عملی میں ایک غیرمعمولی طریقہ کار کا تسلسل رہا ہے۔
تسنیم خبررساں ادارہ: تاریخ تشییع کے پہلے مرحلے کے بعد امام باقر اور امام جعفر صادق علیہماالسلام کے دور میں ان بزرگ ہستیوں کی رہنمائی، ہدایت اور جد وجہد نے پورے عالم اسلام کو دین اسلام کے نور سے مزید منور کردیا، عالم اسلام کے سب سے بڑے دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی گئی جس میں ہزاروں مسلم دانشوروں نے تربیت حاصل کی۔
تمام بلاد اسلامی میں اس عظیم دینی درس گاہ اورامام کے علمی خزانے کے ہی چرچے تھے جس کی وجہ سے مکہ، مدینہ کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی عاشقان علم و دین امام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛یہاں تک کہ بعض غیرمسلم دانشور بھی امام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھانے لگے۔
امام جعفرصادق (ع) نےاس وقت کی مناسب سیاسی اور معاشرتی ضرورت کے پیش نظر اپنے والد ماجد کی علمی، ثقافتی اور تربیتی تحریک کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک بہت بڑا حوزہ علمیہ اورایک عظیم یونیورسٹی قائم کی اور علمی و نقلی مختلف شعبوں میں شاگردوں کی تربیت کی۔ آپ کے شاگردوں میں ہشام بن حکم، مفضل بن عمر کوفی، محمد بن مسلم ثقفی، ابان بن تغلب اور جابر بن حیان وغیرہ سرفہرست ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ امام علیہ السلام کے شاگردوں کی تعداد 4 ہزار سے زائد ہے۔
ابن عقدہ نے کتاب رجال میں امام صادق علیہ السلام کے 4ہزار شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں امام کے بہت سارے شاگردوں نے بڑے کارنامے انجام دیےاور امام سے ہزارں کی تعداد میں روایات نقل کیں خاص کر ابان بن تغلب نےامام سے 30 ہزار روایات نقل کیں ہیں۔
حسن بن علی وشا کہتے ہیں: میں نے مسجد کوفہ میں 9 سو مشایخ حدیث سے ملاقاتیں کیں اوران سب کو یہ کہتے ہوئے پایا کہ ''جعفربن محمد کا فرمان ہے'' یعنی وہ صرف امام جعفر صادق کے حوالےسے ہی احادیث بیان کیا کرتے تھے۔
شیخ جعفر شہیدی نے زندگانی امام صادق نامی کتاب کے صفحہ 65 پر امام صادق کی شاگردی کرنے والے علماء کا تذکرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں: زرارة بن اعین اور ان کے دو بھائی بکر و حمران۔ جمیل بن صالح، جمیل بن دراج،محمد بن مسلم طائفى، برید بن معاویه، هشام بن حکم، هشام بن سالم، ابوبصیر، عبیدالله، محمد، عمران حلبى، عبدالله بن سنان اور ابوالصباح کنانى جیسے معروف علماء نے نے امام کی شاگردی کی۔
جابر بن حیان: شیعہ کثیرالجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات اور ماہر فلکیات تھے۔ تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اورعظیم مسلم ان سائنسدان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا۔ دنیاآج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے۔ جب کہ اہل مغرب ’’Geber ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی مانا جاتا ہے۔ وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے واقف تھا۔ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جابربن حیان امام صادق علیہ السلام کے شاگرد تھے۔
• جمیل بن دراج: امام جعفرصادق کے خاص شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام جمیل بن دراج پر بہت اعتماد کرتے تھے اور اپنی سری اور خاص باتیں صرف انہیں ہی بتایا کرتے تھے۔
• لیث بن البخترى: امام جعفری صادق اور امام محمدباقرکے شاگرد تھے، امام جعفر صادق نے انہیں اکابر اور دانشمند کا لقب دیا تھا۔
• ہشام بن حَکَم دوسری صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ امام صادقؑ، امام کاظمؑ، امام علی رضاؑ اورامام جوادؑ سے ان کی مدح میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث کے مطابق آپ ائمہ کی حقانیت کے معترف، حق وحقیقت کے مؤید، اہلبیتؑ کی ولایت کے مدافع اور انکے دشمنوں کے باطل ہونے کو ثابت کرنے والے ہیں۔ احادیث میں ان کی پیروی کو ائمہ کی پیروی نیز ان کی مخالفت کو ائمہ کی مخالفت کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
•جابر بن یزید جعفی: وہ امام جعفر صادق اور امام محمدباقرعلیہما السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔ امام جعفرصادق علیہ السلام ان کی مدح میں فرماتے ہیں، ان کو جابر اس لئے کہتے ہیں کہ مومنین کی علمی کمزوریوں کا جبران کرتے ہیں، جابر اپنےزمانے میں علم بے کراں کے مالک تھے۔
زرارۃ کوفی (تقریبا 70۔150 ھ)،امام باقر ؑ،امام صادق ؑ اورامام کاظم ؑ کےخاص اصحاب اور بڑے پایہ کے شیعہ فقہاء، متکلمین اور اصحاب اجماع میں سے تھے۔ امام صادق ؑ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر زرارہ نہ ہوتے تو میرے والد گرامی کی احادیث ختم ہوجاتیں۔ امام صادق ؑ نےان کو بہشت کی بشارت دی ہے۔
زرارہ کا تعلق عرب کے نامور خاندان آلاعین سے ہے اور اس خاندان کے بہت سارے افراد ہمارے ائمہ کے اصحاب اور فقہا میں سے ہیں۔ اگرچہ زرارہ نے بہت ساری کتابیں تالیف کی ہیں لیکن رجالی کتابوں میں صرفا لاستطاع )هوالجبروالعہود( نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
شیعہ فقہا کا امام خمینی تک کا زمانہ
امام صادق علیہ السلام کی علمی جہاد ان کے زمانے تک محدود نہیں؛ بلکہ شیعہ فقہا بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی معاشرے میں دینی تعلیمات کو عام کیا اور کررہے ہیں۔
امام خمینی(رح)مکتب امام صادق ع کی اہمیت بیان کرتے ہوئےفرماتےہیں: امام جعفر صادق (ع) کا عصر فکری اور ثقافتی تحریک کا دور تھا۔ رسول خدا (ص) کےعصر کے بعد امام جعفر صادق (ع) کے دور کی طرح کوئی دور پھر نہیں آیا کہ جس میں خالصا سلامی ثقافت اور معارف کی تبلیغ اور ترویج ہو۔ امام صادق ع نے علم فقہ کو وسعت دی اور تمام انسانی ضروری مسائل کا ذکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں فقہ جعفری میں تاویل یا تفسیر بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فقہ جعفری میں ہرمسئلے کا حل موجود ہے۔
امام صادق نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کر کے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کیا اور اہلبیت علیہمالسلام کی فقہ و دانش اور اسلامی احکام کو فروغ دے کر پوری دنیا میں پھیلایا۔ .
اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ امام خمینی کی آئمہ اطہارعلیہم السلام کے فرامین پر خصوصی توجہ ہی اس عظیم انقلاب کی کامیابی کا باعث بنی۔
''غلام مرتضی جعفری''
بشکریہ: شمس الشموس میگزین