ترجمان دفترطالبان کی تسنیم نیوز سے خصوصی گفتگو/ انتخابات اور قانون اساسی کے متعلق اہم بیان
تسنیم نیوز کے نمائندے نے امریکی حکام اور طالبان کے درمیان ہونے والے ساتویں مرحلے کے مذاکرات کے حوالےسے ترجمان دفتر طالبان سے موقف جاننے کی کوشش کی ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، آئندہ چند دنوں کے دوران طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ساتویں مرحلے کے اہم ترین مذاکرات دوحہ میں ہونے والے ہیں۔
واضح رہے کہ فریقین گزشتہ مذاکرات سے کچھ خاص حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
طالبان کا موقف ہے کہ کسی بھی اہم فیصلے سے پہلے افغانستان میں موجود تمام غیرملکی افواج کا انخلاء ضروری ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں غیرملکی افواج ہیں تب تک اس ملک میں امن مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل ترجمان دفترطالبان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کے بارے میں بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں، امریکی حکام نے مذاکرات کے دوران ہمین یقین دھانی کرائی تھی کہ امریکا افغانستان سے اپنے فوجی اہلکاروں کو واپس بلائے گا۔
امریکی نمائندے زلمی خلیل نے طالبان کے ترجمان کے بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا تھا کہ امریکا صرف افغانستان میں ایک جامع اور پائیدار صلح کا خواہاں ہے اس ملک سے اپنے فوجیوں کا انخلاء نہیں چاہتا۔
دہشت گردی کے ساتھ مقابلے کی ضمانت اور افغانون کے درمیان مذاکرات ہی اس ملک کے بحران کا حل ہے۔ افغانستان میں جنگ بندی اور غیرملکی افواج کا انخلاء ان اہم امور میں سے ہیں۔
زلمی خلیل کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مصالحت اور جامع مذاکرات چار حصوں پر مشتمل ہے، جب تک ان چار حصوں پر اتفاق نہیں ہوتا تب تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
زلمی خلیل کے رد عمل کےساتھ ساتھ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی سہیل شاہین کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الحال امریکا کا افغانستان سے فوجی انخلاء کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا مقصد صرف اس ملک میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے نے طالبان اور امریکی حکام کے بیانات کو مد نظررکھتے ہوئے سہیل شاہین سے کچھ اہم سوالات کئے۔
افغانستان میں آئندہ حکومت کا مسئلہ داخلی ہے اس کا امریکیوں سے کوئی واسطہ نہیں
تسنیم: طالبان اور امریکی حکام کے درمیان افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء اور جنگ بندی کے بارے میں کافی سوالات اٹھائے جارہے ہیں، کیا افغانستان میں امریکی افواج کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی جنگ بندی کا امکان ہے؟؟
.
سہیل شاہین: اب تک امریکی حکام کےساتھ مذاکرات کے 6 مرحلے گذر چکےہیں، مذاکرت میں دو اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی ہے ایک افغانستان پر امریکی قبضے کا خاتمہ اور دوسرا یہ کہ کسی دوسرے ملک کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرے۔ لیکن افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کب ہوگا اس کے بارے میں وقت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔
تسنیم: کیا امریکی حکام سے آئندہ ہونے والے مذاکرات میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور جنگ بندی کے بارے میں کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے؟
سہیل شاہین: امید ہے کہ ساتویں مرحلے کے مذاکرات میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا وقت معین کیا جائے گا تاکہ افغانستان کے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرسکیں۔
تسنیم: کیا طالبان اور امریکی حکام کے درمیان عبوری حکومت کے بارے میں کسی قسم کوئی معاہدہ ہوا ہے؟ اس بارے میں طالبان کا کیا موقف ہے؟
سہیل شاہین: نہیں امریکی حکام کے ساتھ عبوری حکومت کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ہے، عبوری حکومت کا مسئلہ افغانستان کا داخلی مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں صرف افغان شہری ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
ہم قانون اساسی کے مخالف ہیں/ امریکا افغانستان میں داعش کی حمایت کررہا ہے
تسنیم: قانون اساسی کے بارے میں طالبان کا کیا موقف ہے؟
سہیل شاہین: ہمیں صرف وہ قانون اساسی قابل قبول ہے جس میں اسلامی اقدار اور قومی مسائل کا خیال رکھا گیاہو۔ قانون اساسی بنانے کا اختیار افغانستان کے بزرگ علماء کے پاس ہے۔ موجودہ قانون اساسی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے؛ کیونکہ یہ قانون امریکی بی 52 بمبار طیاروں کے سائے تلے بنایا گیا ہے۔
تسنیم: بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی حکام افغانستان کے مستقبل کے بارے میں سخت فکرمند ہیں، دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ افغانستان میں داعشی دہشت گردوں کی امریکا ہی حمایت کرتا رہا ہے۔ کیا طالبان نے مذاکرات کے دوران داعش کے متعلق امریکی حکام سے کوئی بات کی ہے؟
سہیل شاہین: ہم 90 کی دہائی کے مسائل دوبارہ پیدا ہونے نہیں دیں گے، افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کا وقت تعین ہوتے ہی ہم ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکا افغانستان میں داعش کی حمایت کررہا ہے، جس کے بارے میں ہم متعدد بار کہہ چکے ہیں لیکن امریکی حکام یہ بات ماننے کو تیار نہیں، زمینی حقایق یہ ہیں کہ امریکا ہی داعش کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔
افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ہوتے ہوئے انتخابات کا انعقاد بے معنی ہے
تسنیم: افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد طالبان کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
سہیل شاہین: غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ہم تمام سیاسی رہنماوں کے ساتھ مل بیٹھ کراسلامی حکومت تشکیل دیں گے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کے بنیاد پرتعلقات قائم کریں گے۔
تسنیم: افغانستان میں آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
سہیل شاہین: میرے خیال میں امریکا کے ہوتے ہوئے صدارتی انتخابات کا کوئی معنی نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی رہنماء مل کر سب کے لئے قابل قبول ایک اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لائیں۔
تسنیم: بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرطالبان کے امریکی حکام سے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ طالبان میں موجود بعض افراد جنگ کوہی ترجیح دیں اور یوں جنگ کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
سہیل شاہین: نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ طالبان کے تمام افراد اپنی قیادت کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت گزشتہ سال ہونے والی جنگ بندی ہے طالبان قیادت نے پورے ملک میں جنگ بندی کااعلان کیا اور تین دن تک پورے ملک میں ایک گولی بھی نہیں چلی۔