طب اسلامی میں «نوره» کی اہمیت اور مختلف بیماریوں کا علاج
دنیا بھر میں علاج کے جدید ترین طریقوں اور ٹیکنالوجی پر مکمل طور پراعتماد کیا جاتا ہے جبکہ طب اسلامی اور روایتی اور دیسی علاج پرخاص توجہ نہیں دی جاتی جس کی اصل وجہ اہل بیت اطہارعلیہم السلام کے طب کے بارے میں روایات اور فرامین سے عدم آشنائی ہے۔
تسنیم خبررساں ادارہ: ہم پہلے حجامہ اور فصد کے بارے میں آئمہ اطہار علیہم السلام کے گہربار فرمایشات کا ذکر کرچکے ہیں۔ اس بار نورہ کے بارے میں آئمہ ع کے فرمایشات قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
نورہ کے ذریعے علاج
نورہ کے بارے میں آئمہ اطہارعلیہم السلام نے خاص سفارش کی ہے، روایات میں نورہ کا ذکر ایک بہترین دوا کے طورپر کیا گیا ہے۔
نورہ مندرجہ ذیل بیماریوں کے علاج کے لئے نہایت موثر ہے:
1- جسمانی تقویت
2 - جنسی تقویت اورسرد مزاجی کا موثرعلاج
3 - نورہ بلغم، خون، سودا اور صفرا کو معتدل کرتاہے
4 - جنون، جذام اور برص سے مکمل نجات
5 - انسانی جلد کی مختلف بیماریوں کا موثر علاج
6 - حزن، غم اور ذہنی تناو میں کمی
7 - جسمانی کمزوری کو دور کرکے جسم کو صحت مند بناتا ہے
8 - بغل اور جسم کے اضافی بالوں کو نورہ کے ذریعےسے صاف کرنے سے پستان اور سینے کو سرطان جیسے خطرناک مرض سے بچا جا سکتا ہے
9 - ہڈیوں کو مضبوظ بناتا ہے
10 - کینسرکی روک تھام میں مدد
11 - گردے کی مختلف بیماریوں کا علاج
12 - ریمیتزم کی روک تھام اور اس کا علاج
13 - پھوڑوں اورجلدی بیماریوں کا علاج
14 - کمر درد سے مکمل نجات وغیرہ
یہی وجہ ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام نے نورہ کے بارے میں بہت ہی زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فرماتے ہیں:
«السُّنَّةُ فِی النُّورَةِ فِی كُلِّ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْماً فَإِنْ أَتَتْ عَلَیْكَ عِشْرُونَ یَوْماً وَ لَیْسَ عِنْدَكَ فَاسْتَقْرِضْ عَلَى اللَّه»[1]
ہرپندرہ روز میں ایک بار نورہ کا استعمال سنت ہے، اگر بیس دن گزرگئے اور نورہ کا استعمال نہ کیا اور خریدنے کے لئے پیسہ نہ ہوتو قرضہ لو۔ لہذا ایک مسلمان کو چالیس دن کے اندر نورے کا استعمال ضرور کرنا چاہیے۔
نورہ کا استعمال انبیائے الہی کی سنت
امام جعفرصادقعلیہ السلام فرماتے ہیں: انبیائے الہی ہر پندرہ دن میں ایک بار ضرور نورے کا استعمال کیا کرتے تھے۔
«السُّنَّةُ فِی النُّورَةِ فِی كُلِّ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْماً فَمَنْ أَتَتْ عَلَیْهِ إِحْدَى وَ عِشْرُونَ یَوْماً فلیستدین [فَلْیَسْتَدِنْ] عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لْیَتَنَوَّرْ وَ مَنْ أَتَتْ عَلَیْهِ أَرْبَعُونَ یَوْماً وَ لَمْ یَتَنَوَّرْ فَلَیْسَ بِمُؤْمِنٍ وَ لَا مُسْلِمٍ وَ لَا كَرَامَة»[2]
جس نے اکیس دن تک نورہ کا استعمال نہ کیا اور نورہ خریدنے کے لئے پیسہ نہ ہوتو قرضہ لے اللہ تعالی نے اس قرض کی ادائیگی کی ضمانت دی ہے۔ اگر کسی نے چالیس دن گزرنے تک نورہ کا استعمال نہ کیا تو وہ مومن اور مسلمان نہیں ہے نہ اس کی کوئی کرامت ہے۔
.
نورہ کا تاریخی پس منظر
نورہ کا استعمال حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور سے شروع ہوا ہے۔ جب حضرت سلیمان نے جناب بلقیس سے شادی کی تو دیکھا کہ ان کے جسم پراضافی بال بہت زیادہ ہیں تو حضرت سلیمان نے اضافی بالوں کی صفائی کے لئے کوئی دوا تیار کرنے کا سوچا تاکہ اضافی بالوں کا خاتمہ ہوسکے۔[3]
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بہت سارے کارخانے تھے جن میں سے نورہ، شکر، اور پتھروں کے برتن خاص طور دیگ بنانے کے کارخانے قابل ذکر ہیں۔
حضرت سلیمان کے کارخانوں میں سے مشہورترین کارخانہ نورہ کا تھا؛ لہذا نورہ کا سرچشمہ علم انبیائے الہی ہے۔[4]
نورہ کیا ہے؟
"نورہ" نُور یعنی روشنی اور کھلے ہوئے پھول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ چونا اور پڑتال(زرنیخ[5])سے تیار کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پرچھ حصہ چونے میں ایک حصہ پڑتال(زرنیخ) یعنی ارسنک ملانے سے نورہ بن جاتا ہے۔
نورہ استعمال کرنے کا طریقہ
1 - حسب ضرورت نورہ کو کسی برتن میں ڈالیں اور نیم گرم پانی ڈال کرمخلوط کریں، نورہ زیادہ غلیظ یا زیادہ رقیق نہیں ہونا چاہئے؛
2- گردن تک پورے بدن پرنورہ کا خمیرمل لیں؛
3- تین سے چار منٹ تک بدن پر رہنے دیں تاکہ نورہ خشک ہوجائے
4: جسم پر پانی ڈالنے سے پہلے ہاتھوں سے نورہ کو صاف کرلیں؛
5-نورہ کی صفائی کے بعد نیم گرم پانی سے نہا لیں؛
6- نہانے کے بعد پورے بدن پرمہندی لگائیں اور پانچ منٹ کے بعد دوبارہ نیم گرم پانی سے نہالیں۔
9- جسم کو خشک کرنے کےبعد زیتون کے تیل سے 15 منٹ تک پورے جسم کی مالش کریں۔
10- تیل سے مالش کے بعد تیسری مرتبہ نیم گرم پانی سے پورے جسم کو دھولیں بدن کو خشک کرنے کےبعد کاٹن کا لباس پہنیں۔
امام رضا علیہ السلام فرماتےہیں کہ نورہ استعمال کرتے وقت سونگھا کریں، یعنی تھوڑا سا نورہ ناک پرلگائیں تاکہ اس کی خوشبوآتی رہے، نورہ کی خوشبو مختلف بیماریوں کا علاج ہے۔[6]
تحریر: ساجدہ جعفری
[1] . الخصال، ص 538.
[2] . البحار جلد 73، ص 89.
[3] محمدبن جریر طبری، جامع البیان فی تفسیرالقرآن، ج9، جزء19، ص106ـ107، ج9، قاهره 1328، چاپ افست بیروت (بی تا).
[4] احمدبن محمد ثعلبی، قصص الانبیا، ج1، ص286، المسمی عرائس المجالس، بیروت (بی تا).
[5] ۔ عربی میں زرنیخ احمر،ہندی میں منسل، بنگالی میں من چھال، سندھی میں من چھر اور انگریزی میں ریڈ سلفریٹ آف آرسنک
[6] مستدرک الوسائل جلد 1، ص 438، به نقل از رساله ذهبیه، دراسه فی طب الرسول المصطفی، جلد 4، ص 270.