فرزندان امام موسی کاظم علیہ السلام سےعلامہ طباطبائی کی محبت
قمری مہینہ ذی القعدہ کو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا مہینہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔
تسنیم خبررساں ادارہ: ایرانی قوم پر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولاد کے بہت ہی زیادہ احسانات ہیں۔
ایران کا کوئی ایسا شہر نہیں ہے کہ جس میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی شخصیت کا مزار نہ ہو۔ مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام، قم المقدسہ میں حضرت بی بی فاطمہ معصومہسلام اللہ علیہا، شیرازمیں حضرت شاہ چراغ علیہ الرحمہ کے روضہ ہائے اقدس موجود ہیں اور ان تمام بزرگ ہستیوں کی ولادت باسعات ذی القعدہ میں ہی ہوئی ہے۔
ان شہروں کے علاوہ متعدد دیگر شہروں میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے پوتے اور نواسوں کے سینکڑوں مزارات موجود ہیں جہان سال بھر شیعیان آل رسول کا ہجوم رہتا ہے۔
امام رضاعلیہ السلام کی زیارت کے بارے میں مشہور ہے کہ عاشقان امام ہشتم علیہ السلام اُس دور میں بھی آپ کی زیارت کے لئے مشہد مقدس آیا کرتے تھے جب نہ جہاز کا تصور تھا اور نہ ہی کوئی گاڑی ہوا کرتی تھی۔ عاشقان اہل بیت اطہارعلیہم السلام ایران سمیت دنیا کے دور دراز شہروں سے کئی مہینے پیدل سفر کرکے امام علیہ السلام کے دربار میں حاضری دیا کرتے تھے۔
مشہور و معروف تفسیر''المیزان'' کے مصنف اور شهیدعلامہ مرتضی مطهری، شهید علامہ بهشتی، شهید باهنر، شهید ڈاکٹرمفتح، آیت الله العظمی امام خامنه ای، آیت الله العظمی مکارم شیرازی، آیت الله العظمی نوری همدانی، آیت الله العظمی جوادی آملی، آیت الله العظمی حسن زاده آملی،آیت الله مصباح یزدیو .... کے استاد علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ سارے آئمہ اطہارعلیہم السلام لطف وکرم کرنے والے ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کا لطف کچھ خاص ہے۔
علامہ طباطبائی مزید فرماتےہیں ویسے تو سارے امام رئوف ہیں؛ لیکن امام رضا علیہ السلام کی رأفت سب پرعیاں اور ظاہر ہے۔ جب انسان حرم رضوی میں داخل ہوتا ہے تو در و دیوار سے رأفت کی بارش ہوتی ہے۔
علامہ طباطبائی ہرسال امام ہشتم علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر کیا کرتے تھے اورعمر کے آخر ایام میں شدید بیماری کی حالت میں بھی حرم رضوی میں حاضر ہوئے۔ ان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ اتنےعمر رسیدہ ہونے کے باوجود جب وہ حرم امام علیہ السلام میں پہنچتے تھے تو ہجوم کو چیرتے ہوئے ضریح امام تک پہنچ جاتے اور ضریح سے لپٹ کرگریہ وزاری فرماتے تھے۔ علامہ طباطبائی کہا کرتے تھے کہ عشق اہل بیت علیہم السلام سے سرشار ہوکر ضریح کا بوسہ لینے والے مومنین کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔
جب علامہ طباطبائی کے پاس ایک ایسے مشہورعالم کی بات پہنچائی گئی کہ وہ امام کی ضریح کو بوسہ دینا اچھا نہیں سمجھتے ہیں!۔ علامہ طباطبائی نے اس عالم کے جواب میں فرمایا کہ اگر لوگ''بھیڑ کی وجہ سے'' مانع نہ ہوتے تو میں مسجد گوہرشاد کے صحن سے ضریح مقدس تک کی زمین کا بوسہ لیتا۔
علامہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنے ہاتھ کے بوسے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک دن ایک بزرگ شخص نے علامہ سے عرض کیا میں فلاں شہر سے آیا ہوں، آپ کے دست مبارک کا بوسہ لینا چاہتا ہوں! علامہ طباطبائی نے اس بزرگ سے فرمایا: جاو حرم مطہر کے کسی بھی صحن کی زمین کا بوسہ لو وہ زمین میرے سرسے کہیں زیادہ افضل ہے۔
ایک دن علامہ طباطبائی حرم مطہرجانے کےلئے روانہ ہوئے توان سے کہا گیا کہ حرم میں زائرین کی تعداد حد سے زیادہ ہے، کسی اور دن جائیں تاکہ آپ سکون سے زیارت کرسکیں! انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ تو میری خوش قسمتی ہوگی کہ ان لاتعداد زائرین کی صف میں، میں بھی ہوں گا۔ یہ کہہ کر حرم مشرف ہوئے اور بھیڑ کی وجہ سے ضریح مقدس کو کئی بار کوشش کے باوجود بوسہ نہیں دے سکے۔ جب واپس گھر تشریف لائے تو ان سے پوچھا گیا تکلیف تو نہیں ہوئی؟ کہنے لگے حرم مطہر کے روحانی ماحول میں بڑا لطف آیا!
حجت الاسلام معزّی نقل کرتے ہیں کہ طالب علمی کا زمانہ تھا؛ ایک دن مولا امام ہشتم علیہ السلام کے حرم مطہر کے کسی صحن میں بیٹھ کرضریح کا نظارہ کررہے تھے اچانک کسی نے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور نہایت مہربان اور نرم لہجے میں فرمایا: حاجی حسن! حرم کے اندرکیوں نہیں جاتے؟! جب سراٹھا کے دیکھا تو علامہ طباطبائی تھے۔ عرض کیا: گناہوں کی وجہ سے شرم آتی ہے، اندر کیسے جاوں؟! میں گناہ گار کہاں اور حرم پاک کہاں!۔ علامہ نے ایک بار پھر نہایت نرم لہجے میں فرمایا: طبیب مطب میں کس لئے بیٹھتاہے؟ اس لئے کہ بیماروں کا علاج کرے۔ یہاں آل محمد کا طبیب بیٹھا ہوا ہے، جاو امام رضاعلیہ السلام طبیبوں کے بھی طبیب ہیں۔
علامہ کے بیٹے کا کہنا ہے کہ علامہ زندگی کے آخری ایام میں بیماری کی وجہ سے کافی کمزور ہوچکے تھے اور ڈاکٹر نے بھی سفر کرنے سے منع کیا تھا، اس کے باوجود زیارت پر گئے، جب مشہد مقدس سے واپس آئے تو میں نے عرض کیا: آخر کار آپ مولا کے پاس گئے؟ انہوں نے کہا بیٹا امام ہشتمعلیہ السلام کے در کے سوا اورکہاں جائیں؟ ہمارے پاس حرم مطہر کے سوا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے درد کا دوا لے سکیں؟!
حضرت فـاطمه معصومه سلام الله علیها
علامہ طباطبائی رمضان المبارک میں افطاری سے قبل ضریح حضرت معصومہ سلام الله علیها پر ضرور جایا کرتے تھے، روزانہ پیدل حرم مطہر جاتے، زیارت کےبعد ضریح مقدس کا بوسہ لیتے اس کے بعد گھر جایا کرتے تھے۔
علامہ طباطبائی سے ان کے شاگردوں نے عرض کیا کہ بی بی معصومہ سلام الله علیها کے بارے میں کچھ بیان کریں تو انہوں نے فرمایا: بی بی فاطمہ معصومہ ہماری ماں ہیں۔
همه خلق اند زیر سایه ی او آفـتاب خداست معصومه!
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «تدخل بشفـاعتها شیعتی الجنة باجمعهم: بی بی فاطمہ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اگروہ چاہیں توہمارےتمام شیعہ ان کی شفاعت سے جنت میں داخل ہوجائیں۔
حوزہ علمیہ قم کےایک استاد کا کہنا ہے کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ علامہ طباطبائی بی بی معصومہ کے حرم مطہر کے صحن سے مٹی اوردھول اٹھا کر اپنی آنکھوں پر مل رہے ہیں، جب ہم نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ہم تواس قابل بھی نہیں ہیں کہ بی بی معصومہ سلام الله علیها کے حرم میں پڑنے والی دھول کو اپنی آنکھوں پر مل سکیں!۔
یہ اس عالم کا حال ہے جس نے اپنی ساری زندگی خدمت قرآن و اہل بیت کے لئے وقف کردی تھی۔
خوش قسمت ہیں وہ زائرین جو ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرکے حرم آل رسول ص میں حاضری دیکر ضریح مقدس کا بوسہ دینے میں کامیاب ہوتےہیں۔
ترجمہ: غلام مرتضی جعفری
بشکریہ: شمس الشموس میگزین