شمالی کوریا کا میزائیل تجربہ؛ جاپان کی نظریں امریکا کی جانب اٹھ گئیں
شمالی کوریا نے دو میزائلوں کا جاپان کے سمندر میں تجربہ کیا ہے جس کے سبب جاپان کی خائف اور شاکی نظریں ایک بار پھر امریکا کی جانب اٹھ گئی ہیں۔
خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق شمالی کوریا نے اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافے کے لیے دو میزائلوں کا جاپان کے سمندر میں تجربہ کیا ہے۔ شمالی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے مطابق جن میزائلوں کا تجربہ کیا گیا ہے وہ 267 میل (430 کلومیٹر) تک مار کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
شمالی کوریا کے مقامی وقت کے مطابق میزائلوں کا تجربہ صبح پانچ بجکر 34 منٹ اورپانچ بجکر 57 منٹ پر کیا گیا۔
اس حوالے سے شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ شارٹ رینج میزائلوں کو دفاعی نظام میں شامل کیا جائے گا علاوہ ازیں شمالی کوریا کی جانب سے مزید میزائلوں کے تجربات کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔
عالمی مبصرین کے مطابق شمالی کوریا دراصل یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنا دفاعی نظام کمزور نہیں ہونے دے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کم جونگ ان سے ہونے والی ملاقاتوں میں واضح کیا تھا کہ وہ اپنے جوہری تجربات مکمل طور پر بند کرے وگرنہ جاری مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے فائر کیے جانے والے میزائل مشرقی سمندر میں جا گرے جو جاپان کی حدود میں شمار ہوتا ہے۔ جاپان کی جانب سے اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔
شمالی کوریا جب بھی جاپان کے پانیوں میں میزائیل کے کامیاب تجربے کرتا ہے تو جاپان امریکا سے اس کا سدباب کرنے کی امید لگا لیتا ہے۔
یہ امر اس لئے مضحکہ خیز ہے کیونکہ امریکا وہی ملک ہے جس نے 1945 کی 6 اور 9 اگست کو جاپان ہی کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر کوئی عام نہیں بلکہ 2 ایٹمی بم گرائے تھے جس کے نتیجے میں 129000 سے 226000 تک افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔