مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری، عالم اسلام سمیت پوری دنیا خاموش تماشائی


بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 اے ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پانچویں روز بھی کرفیو جاری ہے جب کہ بھارت نے مزید 600 سے زائد سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، پانچ روز قبل نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اے کو ختم کر دیا تھا جس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر کرفیو نافذ ہے۔

تاہم بھارتی اقدام کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے اور مختلف مقامات پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے 6 مظاہرین شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوگئے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق بدستور اپنے گھریا جیل میں نظربند ہیں جب کہ وادی میں پولیس اسٹیشن اور جیل بھر جانے کے باعث مزید گرفتار کیے گئے 560 کارکن سری نگر، بارہ مولا، گریز اور دیگر علاقوں میں بنائے گئے عاضی عقوبت خانوں میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے 2 درجن سے بھی زائد کشمیری حریت کارکنان کو سری نگر سے گرفتار کر کے بھارتی ریاست اترپردیش کے آگرہ سینٹرل جیل میں منتقل کردیا ہے۔

اس مرتبہ بھارت نے اپنے کٹ پتلی رہنماؤں فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون کو بھی گرفتار کر رکھا ہے۔

دوسری جانب لداخ کے ضلع کارگل میں بھی احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

وادی میں احتجاج کو روکنے کے لیے ٹی وی چینلز، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔

بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔ بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔